روسی ریلوے کے ذمے قرضوں پر صرف سالانہ سود ہی سات بلین ڈالر
8 دسمبر 2024روسی ریلوے کو اگلے سال اپنے قرضوں پر سود کی مد میں سات ارب ڈالر ادا کرنا ہوں گے، جو رواں سال کے مقابلے میں چار ارب ڈالر زیادہ ہے۔ حکومت اور کاروباری حلقے زیادہ شرح سود کو سرمایہ کاری میں کمی کی اہم وجہ قرار دے رہے ہیں۔
اگرچہ روسی معیشت 2022 میں یوکرین پر ماسکو کے حملے کے بعد مغربی ممالک کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کے اثرات سے بحال ہو چکی ہے، تاہم ملکی مجموعی پیداوار میں اضافہ اب زیادہ تر فوجی اخراجات پر منحصر ہو چکا ہے۔
اضافی فوجی اخراجات میں اضافے کے باعث رسد اور مانگ کا توازن بگڑ گیا جس کے سبب مہنگائی اور صارفین کے اخراجات میں اضافہ ہوا۔ معیشت کی اس غیر مستحکم صورت حال پر قابو پانے کے لیے روسی مرکزی بینک شرح سود میں اضافہ کر رہا ہے، تاکہ مہنگائی پر قابو پایا جا سکے۔
روسی ریلوے کے لیے بری خبر یہ ہے کہ 2025 میں شرح سود میں مزید اضافے کی توقع ہے۔ مرکزی بینک کے مطابق، 2025 میں شرح سود 17 سے 20 فیصد کے درمیان ہو سکتا ہے۔ روسی ریلوے، جو 685200 ملازمین کے ساتھ ملک کا سب سے بڑا آجر ادارہ ہے، کو اس بڑھتی ہوئی شرح سود کے نتیجے میں مالی مشکلات کا سامنا ہو گا۔
روسی ریلوے کی قرضوں کی شرائط یعنی سود کی شرح اور ادائیگی کی مدت 2025 میں مرکزی بینک کی 16 فیصد کی شرح سود پر مبنی ہیں۔ ادارے کے پاس طویل مدتی اور قلیل مدتی قرضوں کی مد میں بڑی رقم واجب الادا ہے، جو مرکزی بینک کی شرح سود سے منسلک ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان قرضوں کی لاگت میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
روسی مالیاتی مشاورتی ادارے کے مطابق جیسے ہی قرضوں کی شرائط نئے اور زیادہ شرح سود پر دوبارہ ترتیب دی جائیں گی، قرضوں کی ادائیگی کا بوجھ بڑھ جائے گا اور اس کے نتیجے میں ان صنعتوں کی تعداد بھی بڑھ جائے گی جو ان اضافی بوجھ سے متاثر ہوں گی۔
کمپنی کا قرض 30 جون 2024 تک 2.54 ٹریلین روبل تھا، اور 2025 میں یہ بڑھ کر 3.90 ٹریلین روبل یعنی تقریباً 39.6 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔
روس کے وزیر ٹرانسپورٹ رومن اسٹاروویٹ کے مطابق، محکمہ ریلوے نے 2024 میں اپنے سرمایہ کاری منصوبے کے تحت 1.275 ٹریلین روبل مختص کیے تھے، تاہم 2025 میں یہ رقم کم ہو کر ایک ٹریلین روبل تک رہ جائے گی۔
مغربی ممالک نے یوکرین کی جنگ کے باعث روس کے خلاف کئی طرح کی پابندیاں عائد کر رکھیں اور ماسکو کے ساتھ اپنی تجارت بھی کم کر دی ہے۔ ان حالات میں روس اب اپنی توانائی کی برآمدات زیادہ سے زیادہ ایشیائی ممالک کو فراہم کرنا چاہتا ہے، جیسے کہ چین، بھارت اور شمالی کوریا کو۔ اسی لیے ماسکو اب اپنے ریلوے نظام کو بھی بہتر بنانے کی کوشش میں ہے۔
ح ف / ج ا (روئٹرز)