’سانس لیتی ہیں لیکن مردہ ہیں‘: رقہ کی خواتین کا درد
7 اپریل 2016شام اور عراق میں سرگرم عسکریت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے ایک بڑے علاقے پر قبضہ کرنے کے بعد اُس پر اپنی خود ساختہ خلافت قائم کر کے رقہ شہر کو اُس کا دارالخلافہ بنا رکھا ہے۔ رقہ کے عام لوگوں کی دُہائی ہے کہ جب سے یہ خلافت قائم ہوئی ہے، اس نے اُن سے تمام خوشیاں اور مسرتوں کو نچوڑ لیا ہے۔ ان کی ہر چیز سیاہ ہو کر رہ گئی ہے۔ مرد و زن کے لباس سیاہ ہیں۔ ساری دیواریں سیاہی رنگت والی کر دی گئی ہیں۔ عمارتیں بھی سیاہ اور بینر بھی سیاہ رنگت والے ہیں۔ رقہ میں سب کچھ تاریک ہو کر رہ گیا ہے۔
پچیس برس کی نوجوان خاتون ہالہ نے ساری زندگی اِسی شہر میں بسر کی ہے اور وہ رقہ یونیورسٹی میں انگریزی ادب کی تعلیم بھی حاصل کرتی رہی ہے۔ ہالہ نے بتایا کہ اُس کی نس نس میں یہ شہر بسا ہوا اور اسی باعث وہ کہیں اور نہیں جا سکتی ہے۔ اُس کے مطابق وہ کوئی بہت آزاد خیال لڑکی نہیں تھی لیکن اُسے کسی پابندی کا بھی سامنا نہیں تھا مثلاً حجاب وغیرہ کا اور وہ اپنے خاندان کی روایتوں پر عمل پیرا رہتی تھی۔
خواتین پر’ اسلامک اسٹیٹ‘ کے اثرات
رقہ پر شامی فوج کو شکست سن 2013 میں ہوئی تھی اور جہادی تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے شہر کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد تمام خواتین کو حکم دیا کہ وہ پورے سر کو ڈھانپتے ہوئے سیاہ نقاب اور عبایہ کے بغیر اپنے اپنے گھروں سے باہر نہ نکلیں۔ انہیں سیاہ دستانے بھی پہننے کا حکم دیا گیا۔ اِس شہر کی ایک خاتون نے اپنے فرضی نام ہالہ کے ساتھ ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اِس شکستہ شہر میں اسلامک اسٹیٹ کی حکمرانی نے خواتین کی زندگی کی ہر خوشی اُن سے دور کر دی ہے۔ تمام خواتین کو خوشبو لگانے سے روک دیا گیا اور حکماً انہیں سیاہ لباس تک محدود کر دیا۔ وہ بازار یا مارکیٹوں میں اونچی آواز میں بات کرنے سے محروم کر دی گئیں اور کوئی بھی خاتون گھر سے کسی مرد کے بغیر نہیں نکل سکتی۔ ہالہ کے مطابق ان پابندیوں کی نگرانی کے لیے ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے ’خنسا بریگیڈ‘ قائم کر رکھا ہے۔
روایات کُچل دی گئیں
تمام اسکولوں، یونیورسٹیوں اور دوسرے تعلیمی اداروں کو بند کر دیا گیا اور عورتوں کی رقا شہر سے باہر جانے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔ ہالہ نے اِس قبضے کے حوالے سے بتایا کہ بتدریج صورت حال خراب سے خراب تر ہوتی گئی۔ ہالہ کے بقول ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی آمد کے بعد ہر چیز تبدیل ہو کر رہ گئی ہے۔ ہالہ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ اسلامک اسٹیٹ نے صرف خواتین کے حالات اور ان کی ہیت کو تبدیل کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ شہر کے رسم و رواج اور روایتی اقدار کو اپنی شرعی تعریفوں و توجیہات سے بھی تبدیل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
گرفتاریاں اور سزائیں
ذہنوں کی تبدیلی کے لیے داعش نے اپنے شرعی تشریحات کو متعارف کروا رکھا ہے اور ان کی خلاف ورزی پر گرفتاریاں اور کوڑے مارنے کی سزا ایک معمول ہے۔ ہالہ کے مطابق ضروریات زندگی کے لیے اُسے بھی خواتین کے ایک اسٹور پر ملازمت کرنا پڑی تھی۔ اِس اسٹور پر ایک دن اسلامک اسٹیٹ‘ کی شریعت فورس نے چھاپہ مار کر اُسے اور اسٹور کے مالک کو گرفتار کر لیا گیا۔ دونوں کو مخلوط رویہ اپنانے کے الزام کے تحت کوڑے مارے گئے۔ ہالہ کے مطابق اب اُس کے خواب بھی ٹوٹ پھوٹ کر رہ گئے ہیں اور اُس کی طرح دوسری نوجوان خواتین سانس تو لے رہی ہیں لیکن شکستگی و مردہ دلی کے ساتھ زندہ ہیں۔ ہالہ نے مزید کہا کہ اُس نے ماضی کو یاد کرنا بھی چھوڑ دیا ہے کیونکہ اُس کے اندر مختلف اشیا اور رویوں کے حوالے سے احساسات بھی پیدا ہونا ختم ہو گئے ہیں۔