صدر پوٹن کی نئی خارجہ پالیسی: ایک 'روسی دنیا' کے قیام پر زور
6 ستمبر 2022روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے پیر کے روز "رشیئن ورلڈ" یا 'روسی دنیا' کے تصور کے گرد مبنی ایک نئے خارجہ پالیسی نظریے کو منظوری دی۔ یہ تصور قدامت پسند نظریات کے حامل افراد استعمال کرتے رہے ہیں اور وہ اس کے تحت روسی بولنے والوں کی حمایت میں بیرون ملک مداخلت کو جائز قرار دیتے ہیں۔
یوکرین کے خلاف جنگ شروع کرنے کے کوئی چھ ماہ بعد شائع ہونے والی 31 صفحات پر مشتمل اس "انسانی ہمدردی کی پالیسی" میں کہا گیا ہے کہ روس کو "روسی دنیا کی روایات اور نظریات کی حفاظت، تحفظ اور ترقی کی کوشش کرنی چاہئے۔"
پالیسی میں کہا گیا ہے کہ ''روسی فیڈریشن بیرون ملک مقیم اپنے ہم وطنوں کو ان کے حقوق کے حصول میں مدد فراہم کرتا ہے، تاکہ ان کے مفادات کے تحفظ اور ان کی روسی ثقافتی شناخت کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔''
اس میں کہا گیا ہے کہ روس کے بیرون ملک اپنے ہم وطنوں کے ساتھ تعلقات نے اسے ''بین الاقوامی سطح پر ایک جمہوری ملک کے طور پر ایک کثیر قطبی دنیا کی تشکیل کے لیے کوشاں اپنے امیج کو مضبوط کرنے کی اجازت دی ہے۔''
یہ تصور دراصل ایک قسم کے 'سافٹ پاور' حکمت عملی کے تحت روسی سیاست اور مذہب کی سرکاری پالیسی میں موجود ہے اور کچھ سخت گیر افراد نے یوکرین کے کچھ حصوں پر ماسکو کے قبضے کو جواز فراہم کرنے نیز ملک کے مشرق میں روس نواز اداروں کی حمایت کے لیے استعمال کیا ہے۔
روس اور مغربی ملکوں کے مابین لفظوں کی جنگ
بھارت اور روس کے مابین اربوں ڈالر کے معاہدوں پر دستخط
پوٹن برسوں سے اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ انہیں ان تقریباً 25 ملین نسلی روسیوں کی المناک قسمت کی تکلیف کا احساس ہے جو 1991 میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد روس سے باہر نئی آزاد ریاستوں میں رہتے ہوئے مختلف مسائل سے دوچار ہو رہے ہیں۔ پوٹن اس واقعے کو "جغرافیائی سیاسی تباہی" قرار دیتے ہیں۔
نئی پالیسی میں کیا ہے؟
روس میں دائیں بازو کے خیالات کے ایسے افراد کی بڑی تعداد موجود ہے جو آج بھی سابقہ سوویت یونین کے جغرافیائی علاقے یعنی بالٹک سے وسطی ایشیا تک کے علاقے پر اپنا جائز حق مانتے ہیں۔ حالانکہ اس علاقے کے بہت سے ممالک کے علاوہ مغربی دنیا بھی اس حق کو ناجائز سمجھتی ہے۔
مغربی پابندیاں، کیا پوٹن کا مؤقف بدل سکیں گی؟
مغرب کے خلاف روسی جارحیت بڑھ رہی ہے، اینڈریو پارکر
نئی خارجہ پالیسی میں کہا گیا ہے کہ روس کوسلاوک ملکوں، چین اور بھارت کے ساتھ تعاون میں اضافہ کرنا چاہئے اور مشرق وسطیٰ، لاطینی امریکہ اور افریقہ کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم کرنا چاہئے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ ماسکو کو جارجیا کے دو علاقوں ابخازیہ اور اوسیتیا کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید گہرا کرنا چاہیے۔ ماسکو نے سن 2008 میں جارجیا کے خلاف جنگ کے بعد ان دونوں علاقوں کو آزاد تسلیم کیا تھا۔ اس کے علاوہ مشرقی یوکرین میں دو الگ ہونے والے علاقوں، خود ساختہ ڈونیٹسک عوامی جمہوریہ اور لوہانسک عوامی جمہوریہ کو بھی مضبوط کرنا چاہئے۔
ج ا/ ص ز (روئٹرز)