عالمی امن کوششیں ناکام، اسد فورسز کا حلب پر بڑا حملہ شروع
23 ستمبر 2016نیوز ایجنسی روئٹرز نے نیویارک سے اپنے ایک جائزے میں بتایا ہے کہ امریکا اور روس شام میں محض چند ہی روز جاری رہنے والی جنگ بندی کو بحال کروانے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ امریکا، روس اور دیگر اہم طاقتوں پر مشتمل انٹرنیشنل سیریا سپورٹ گروپ (ISSG) کا اجلاس جمعرات کو نیویارک میں ہوا، جہاں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس بھی جاری ہے۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے حلب پر شامی فوج کے نئے بڑے حملے کے اعلان پر تشویش ظاہر کی اور کہا:’’ہم نے روسیوں کے ساتھ تبادلہٴ خیال کیا ہے اور زیرِ بحث نکات پر ہم کل پھر سے بات کریں گے۔ مَیں آج بھی اتنا ہی پُر عزم ہوں، جتنا کہ کل تھا لیکن آج مَیں زیادہ جھنجھلایا ہوا ہوں۔‘‘
شام میں قیام امن کے مذاکراتی عمل کی بحالی کے لیے امریکا اور روس کے درمیان نو ستمبر کو شام بھر میں جنگ بندی کا ایک سمجھوتہ ہوا تھا، جس میں جنگ زدہ علاقوں میں پھنسے شہریوں تک اَشیائے ضرورت پہنچانے کے ساتھ ساتھ القاعدہ سے جڑے گروپوں یا دیگر کالعدم انتہا پسند گروہوں کے خلاف مشترکہ فوجی آپریشنز کا بھی امکان ظاہر کیا گیا تھا۔ پیر کے روز ایک امدادی قافلے پر حملے میں بیس افراد کی ہلاکت کے بعد یہ سمجھوتہ عملاً ختم ہو گیا تھا۔
شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب اسٹیفن ڈے مِستورا نے جنگ بندی ڈیل کی بحالی کے لیے مذاکرات جاری رکھنے پر امریکا اور روس کے اتفاق رائے کا خیر مقدم کیا تاہم انہوں نے نیویارک میں منعقدہ اجلاس کو ’طویل، تکلیف دہ، مشکل اور مایوس کُن‘ قرار دیا۔
کیری نے مطالبہ کیا تھا کہ روس اور شامی حکومت جنگ زدہ علاقوں کے اوپر پروازیں فوری طور پر روک دیں تاہم جیسا کہ اس اجلاس میں شریک جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر نے بتایا کہ اس تجویز کی وسیع تر حمایت کے باوجود اس پر اتفاق نہ ہو سکا۔ امریکا کا موقف ہے کہ اب گیند روس کی کورٹ میں ہے اور یہ کہ کوئی بھی جنگ بندی ڈیل روس کے سنجیدہ تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔
اُدھر شامی فوج نے حلب میں محصور باغیوں کے خلاف اپنا آپریشن شروع کر دیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اب تک چَودہ نئے فضائی حملوں کے علاوہ فاسفورس بم بھی برسائے گئے ہیں، جن میں چالیس افراد کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔ حلب کے مشرقی حصے پر شامی صدر بشار الاسد کے مخالفین کا قبضہ ہے جبکہ شہر کا بقیہ حصہ اور تمام اہم گزرگاہیں دمشق حکومت کے زیر اثر ہیں۔