فیس بک اور سیاسی عمل: نائجیریا
14 جولائی 2010نائيجيريا کے دارالحکومت ابوجا ميں قصر صدارت کی طرف سے اس نئی پيشکش ميں عوام بہت زيادہ دلچسپی لے رہے ہيں۔ صدر جوناتھن کو فيس بک پر آئے ہوئے ابھی دو ہفتے بھی نہيں ہوئے ليکن اس تھوڑے سے عرصے ہی ميں ايک لاکھ سے زائد افراد نے اس پیج ميں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ اگرچہ جرمن چانسلر انگیلا ميرکل کا فيس بک پيج اس سے کہيں زيادہ پرانا ہے ليکن اس ميں دلچسپی لينے والوں کی تعداد اب تک 40 ہزار سے آگے نہيں بڑھی ہے۔ تاہم نائيجيريا کے صدر کا امريکی صدر باراک اوباما سے کوئی موازنہ نہيں کيا جا سکتا، جن کے پيج پر رجسٹرڈ ناظرین کی تعداد 10 ملين سے زيادہ ہے۔
انٹرنيٹ کے صارفين اپنے فيس بک پيج پر اپنے خيالات کو تحرير کی شکل دے سکتے ہيں۔ فيس بک کو استعمال کرنے والے دوسرے افراد ان تحريروں کو پڑھ کر اُن پر تبصرے کر سکتے ہيں اور وہ يہ بھی بتا سکتے ہيں کہ انہیں يہ پيج پسند آيا يا نہيں۔ تب انہيں اس متعلقہ پيج ميں دلچسپی لينے والوں ميں شمار کيا جانے لگتا ہے اور اس کے ساتھ ہی انہيں اس صفحے پر لکھی جانے والی نئی تحريروں کے بارے ميں خود بخود اطلاع ملنے لگتی ہے۔
نائيجيريا کے ايک انٹرنيٹ کيفے ميں ايک خاتون نے کہا کہ اس طرح نائيجيريا کے عوام کو يہ موقع ملا ہے کہ وہ گرفتاری يا تعاقب کے خوف کے بغير سياستدانوں کو براہ راست اپنی رائے بتا سکتے ہيں۔ اس طرح عوام اور سياستدانوں کے درميان خليج کم ہوتی ہے۔ نائيجيريا کے سياستدان بھی فيس بک کو اپنے عوام سے تبادلہء خيالات اور مسائل حل کرنے کا ايک اچھا ذريعہ سمجھتے ہيں۔ صدر جوناتھن کے لئے اس شعبے ميں مصروف کار ياکوبو موسٰی نے کہا:’’اپنے فيس بک کے لئے صدر خود لکھتے ہيں۔ اس پيج پر جو کچھ تبصرے لکھے جاتے ہيں، وہ بسا اوقات صدر کے فيصلوں پر اثر انداز بھی ہوتے ہيں۔‘‘
نائيجيريا کے صدر جوناتھن اپنے فيس بک پيج پر ملک کے بہت سے مسائل کو موضوع بنتے ہیں مثلاً وہ بجلی کی انتہائی کم پيداوار يا نائيجر ڈيلٹا کے ماحولياتی مسائل پر لکھتے ہیں۔ اُن کی تحريروں پر عوام بھر پور طور پر تبصرے اور رائے زنی کرتے ہيں۔
رپورٹ: محمد اول، تھومس موئش / شہاب احمد صدیقی
ادارت: امجد علی