لاپتہ صحافی سلیم شہزاد کی لاش مل گئی
1 جون 2011پولیس حکام کے مطابق ہلاک ہونے والے صحافی کے جسم پر تشدد کے نشانات بھی پائے گئے ہیں۔ پاکستان میں ہیومن رائٹس واچ کے نمائندے علی دیان حسن کا کہنا ہے کہ سلیم شہزاد کو پاکستانی خفیہ اداروں کی طرف سے دھمکیاں دی جا رہی تھیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے حسن کا کہنا تھا، ’’انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ ان کا پیچھا کیا جا رہا ہے اور خفیہ ادروں کی طرف سے انہیں دھمکی آمیز ٹیلیفون کالز بھی موصول ہو رہی ہیں۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’ہم یہ بات یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ سلیم شہزاد کو کس نے قتل کیا ہے۔ لیکن ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ سلیم شہزاد کو پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی جانب سے سنگین خطرہ تھا۔‘‘
پاکستانی ملٹری کی جانب اس حوالے سے کوئی بھی تبصرہ ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے۔
ہانک کانگ میں واقع ایشیا ٹائمز آن لائن کے پاکستان میں بیورو چیف 41 سالہ سلیم شہزاد اتوار کی شب وفاقی دارالحکومت کے ایف ایٹ سکیٹر میں اپنی رہائش گاہ کے قریب سے اس وقت لاپتہ ہو گئے تھے، جب وہ ایف سِکس سیکٹر میں واقع ایک نجی ٹی وی چینل ’دنیا نیوز‘ کے پروگرام میں شرکت کے لیے جا رہے تھے۔
سلیم شہزاد نے کچھ روز پہلے ایشیا ٹائمز کے لیے پی این ایس مہران بیس پر دہشت گردانہ حملے کے بارے میں ایک رپورٹ لکھی تھی، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان نیوی میں القاعدہ کے سیل قائم ہوچکے ہیں اور کچھ دن قبل نیوی کے گرفتار ہونے والے اہلکاروں کا تعلق القاعدہ سے تھا۔ سلیم شہیزاد کی رپورٹ کے مطابق القاعدہ کی قیادت نیوی کے حکام سے ان اہلکاروں کے رہائی کے لیے بات چیت کررہی تھی اور یہ بات چیت ناکام ہونے کے بعد ہی پی این ایس مہران بیس پر اندرونی مدد سے حملہ کیا گیا۔
یاد رہے کہ پاکستان میں میڈیا حالیہ چند برسوں میں بڑی تیزی سے پروان چڑھا ہے۔ سیاستدانوں کو ہدف تنقید بنانے والے میڈیا پر آرمی کے کردار پر بہت ہی کم بحث کی جاتی ہے۔
گزشتہ برس صحافیوں کے تحفظ کی عالمی کمیٹی نے ایک رپورٹ جاری کی تھی، جس کے مطابق پاکستان صحافیوں کے لیے سب سے خطرناک ملک ہے۔ ’دی کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘ کا کہنا تھا کہ 2010ء میں وہاں آٹھ صحافی اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران ہلاک ہوئے۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: ندیم گِل