لیبیا میں حکمرانوں کے خلاف عوامی یوم الغضب
17 فروری 2011لیبیا میں اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے معمر قزافی کے مخالف مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ملک میں اسی طرح کی تبدیلی چاہتے ہیں، جیسی چند ہفتے قبل پہلے تیونس اور پھر مصر میں دیکھنے میں آئی۔
آج منائے جانے والے یوم الغضب سے قبل بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات البیضاء میں مظاہرین کی سکیورٹی دستوں کے ساتھ جو جھڑپیں ہوئیں، ان میں اپوزیشن کی ایک ویب سائٹ کے مطابق کم از کم چار افراد ہلاک ہوئے۔ سرکاری میڈیا میں صرف دو ہلاکتوں کا ذکر کیا گیا ہے جبکہ متعدد افراد زخمی بھی ہوئے۔
لیبیا میں معمر قذافی کے 41 سالہ دور اقتدار کے خلاف اپوزیشن کس طرح کی عوامی مہم چلا رہی ہے، اس کا اندازہ ’خلاص‘ سے ہوتا ہے، یعنی ختم۔ یہ ان بہت سے فیس بک گروپوں میں سے ایک کا نام ہے، جنہوں نے لیبیا میں آج جمعرات کو یوم الغضب منانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ یہ سیاسی سماجی گروپ انٹر نیٹ ویب سائٹ ٹویٹر پر بھی بڑے فعال ہیں۔ فیس بک اور ٹویٹر پر ہر چند منٹ بعد لیبیا سے متعلق نئی معلومات شائع کی جا رہی ہیں۔
یہ معلومات شائع کرنے والے سارے ہی لوگ لیبیا میں نہیں رہتے۔ لیبیا میں طیش میں آئی ہوئی نوجوان نسل کے بہت سے ہمدرد بیرون ملک رہتے ہیں۔ اس لیے کہ اس عرب ملک میں حکمران کسی بھی وقت انٹرنیٹ بند کر سکتے ہیں، خاص طرح کی ویب سائٹس بلاک کر سکتے ہیں اور حکومت پر آن لائن تنقید کرنے والوں کوگرفتار کر سکتے ہیں۔
آزادی صحافت کی صورت حال پر نظر رکھنے والی بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز کی تیار کردہ فہرست کے مطابق لیبیا پریس فریڈم کے حوالے سے 179 ملکوں کی فہرست میں 160 ویں نمبر پر ہے۔ لیبیا میں آزادی رائے اگرچہ ایک اجنبی لفظ ہے تاہم آج کل بہت سے لوگ اپنی آواز بلند کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔
’’کھڑے ہو جاؤ، بن غازی، جس دن کا تمہیں انتظار تھا، وہ آ گیا ہے،‘‘ یہ وہ نعرے ہیں، جو مظاہرین میں شامل خواتین نے بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب ہی لگانے شروع کر دیے تھے۔
عینی شاہدین کے مطابق بن غازی میں مظاہرین کی تعداد دو ہزار کے قریب تھی۔ پولیس نے انہیں آنسو گیس کے ذریعے منتشر کرنے کی کوشش تو کی لیکن اگر انٹر نیٹ پر کیے گئے اعلانات پر یقین کیا جائے، تو آج یہی مظاہرین دوبارہ وہاں جمع ہوں گے۔
’’جبر کیوں، اب ہم کوئی حل چاہتے ہیں۔‘‘ بن غازی میں مظاہرین ایسے نعرے ہی لگا رہے تھے۔ وہ حکومتی عناصر کی بد عنوانی کا خاتمہ اور شہریوں کے لیے زیادہ حقوق چاہتے ہیں۔ ان مظاہروں کی اپیل کے سلسلے میں انٹرنیٹ ویب سائٹ یو ٹیوب پر ایک ایسی ویڈیو بھی جاری کی گئی ہے، جس میں لیبیا کے رہنما معمر قذافی اور ان کے بیٹوں کو پرتعیش زندگی سے لطف اندوز ہوتے دکھایا گیا ہے۔
اس ویڈیو میں ایک rap گیت کے ذریعے مظاہرین یہ بھی پوچھتے ہیں کہ لیبیا میں عام شہریوں کے لیے کچھ باقی کیوں نہیں بچتا۔ عربی زبان میں اس گیت کے بول ہیں: ’’اپنا سرمایہ بیرون ملک لے جاؤ، تاکہ کوئی نہ کوئی اسے آخری مرتبہ منجمد کر سکے۔ اربوں مالیت کی کتنی رقوم ضائع کی جائیں گی؟ تمہیں تو صرف سرمایہ ضائع کرنا ہی اچھا لگتا ہے۔‘‘
لیبیا میں آج یوم الغضب 17 فروری 2006ء کے اس دن کی یاد میں منایا جا رہا ہے، جب بن غازی ہی میں ڈنمارک میں شائع ہونے والے پیغمبر اسلام کے متنازعہ خاکوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے کے دوران عوام کا سکیورٹی دستوں کے ساتھ وہ تصادم ہوا تھا، جس میں دس مظاہرین کو گولی مار دی گئی تھی۔
آج بھی وہاں مظاہرین کو قابو میں رکھنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری کی موجودگی یقینی ہے اور ساتھ ہی معمر قذافی کے حق میں مظاہرے کرنے والے بھی وہاں موجود ہوں گے۔ دارالحکومت طرابلس میں تو آج صبح سے ہی شہر کے گرین پلیس کہلانے والے مرکزی علاقے میں کرنل قذافی کے حامی جمع ہونا شروع ہو چکے ہیں۔
یہ حکومت نواز مظاہرین اپنے سروں پر سبز پٹیاں باندھے ہوئے ہیں اور انہوں نے معمر قذافی کی بڑی بڑی تصویریں بھی اٹھا رکھی ہیں۔ ان کا پیغام بہت واضح ہے: وہ اس امر کو یقینی بنائیں گے کہ جمہوری تحریک کے کارکنوں کے ساتھ ان کا آمنا سامنا پر امن نہ رہے۔
رپورٹ: ایستھر ساؤب، قاہرہ / مقبول ملک
ادارت: کشور مصطفیٰ