متحدہ قومی موومنٹ کے وزراء نے استعفے دے دیے
28 جون 2011منگل کے روز ایم کیو ایم کے وفاقی وزراء نے اپنے استعفے قائم مقام صدر کو جبکہ صوبائی وزراء نے اپنے استعفے قائم مقام گورنر سندھ کو بھجوا دیے ہیں۔ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان پاکستان کے زیر اہتمام کشمیر کے حالیہ انتخابات میں کراچی سے مہاجرین کی دو نشستوں پر پولنگ ملتوی کرانے کے فیصلے پر پھوٹ پیدا ہو ئی تھی۔
ایم کیو ایم کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی نے اتحادی ہونے کے باوجود ہر اہم موقع پر دھوکہ دہی سے کام لیا۔ متحدہ قومی موومنٹ کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر فاروق ستار نے اسلام آباد میں ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ایم کیو ایم کو اپنی مرضی کی تابع کرنا چاہتی ہے جو انہیں قبول نہیں۔ انہو ں نے مستقبل میں ا پنی جماعت کا لائحہ عمل واضح کرتے ہوئے کہا: ’’پیپلزپارٹی کو اب کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے ۔ اور اب دیکھنا یہ چاہیے کہ انہیں ایک اور زیادہ طاقتور، مضبوط اور مستحکم اپوزیشن کا سامنا ہے۔ وہ اس کے لیے تیاری کریں اور عوام کو جو ریلیف دینا ہے اس پر جلد کام کریں اور باقی چیزوں کو چھوڑ دیں۔‘‘
دوسری جانب اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ نون نے ایم کیو ایم کے استعفوں کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی کی جمہوریت پسندی کا پھانڈا پھوٹ گیا ہے۔ مسلم لیگ نون کے رہنما احسن اقبال نے کہا: ’’ایم کیو ایم ساڑھے تین سال کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہے جہاں ہم چھ ہفتوں میں پہنچ گئے تھے۔ یہ حکومت جو قومی مفاہمت کا نام لیتی ہے دراصل وہ ایک لبادہ ہے جس کی آڑ میں وہ مفاد پرستی اور دھوکہ دہی کی سیاست کرتی ہے۔‘‘
ادھر پیپلزپارٹی کی قیادت کا کہنا ہے کہ وہ ماضی کی طرح اپنے اتحادیوں کو ایک بار پھر منا لیں گے۔ پیپلزپارٹی کے سیکرٹری اطلاعات قمر الزمان کائرہ نے سپریم کورٹ کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم ہماری اتحادی تھی، ہے اور رہے گی ۔ انہوں نے کہا: ’’محترمہ بے نظیر بھٹو نے مفاہمت کے ذریعے ماضی کے ان رویوں کو دفن کرنے کی بات کی تھی۔ بدقسمتی سے ہمارے کچھ ساتھی آج پھر ان رویوں کو لے کر چلے ہیں اور وہی نفرت کی سیاست، وہی بے جا الزام تراشیاں اور میڈیا ٹرائل کررہے ہیں۔‘‘
ایم کیو ایم اس وقت پارلیمنٹ میں اپنی تعداد کے لحاظ سے نمایاں حیثیت رکھتی ہیں۔ سو رکنی ایوان بالا یعنی سینٹ میں اس کے چھ سینیٹرز جبکہ 342 رکنی قومی اسمبلی کے ایوان میں 25 نشستیں اور سندھ کی 168 رکنی ایوان میں اس کے ارکان کی تعداد 51 ہے۔
اس سے پہلے ایم کیو ایم جب حکومت سے الگ ہوئی تھی تو پیپلزپارٹی شدید مشکلات کا شکار ہو گئی تھی اور اس کے لیے وفاق میں اپنی حکومت برقرا ررکھنا مشکل ہو گیا تھا۔ تاہم اب مسلم لیگ(ق) کے حکومتی اتحاد میں شامل ہونے سے بظاہر پیپلز پارٹی کو عددی اعتبار سے مسئلے کا سامنا دکھائی نہیں دیتا۔ اس بارے میں حکومت کی اتحادی جماعت اے این پی کے سینیٹر زاہد خان کا کہنا ہے: ’’جو اس وقت صورت حال بنتی ہے کوئی تشویش ناک نہیں ہے۔ مسلم لیگ(ق) کے آنے سے حکومت کے پاس نمبر پورے ہیں اور موجودہ حکومت ایک جمہوری حکومت ہے اس کو اپنی مدت پوری کرنی چاہیے۔‘‘
پاکستانی صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری اس وقت لندن میں ہیں۔ توقع کی جا رہی ہےکہ وہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین سے ملاقات کرکے انہیں ایک مرتبہ پھر حکومتی اتحاد میں شامل ہونے کے لیے قائل کریں گے۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: افسر اعوان