متنازعہ اسرائیلی قانون منظور، بائیکاٹ کے حامیوں کا داخلہ منع
8 مارچ 2017یروشلم سے بدھ آٹھ مارچ کو موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق اسرائیلی پارلیمان کنیسیٹ کی طرف سے پیر چھ مارچ کو رات گئے منطور کیے گئے اس متنازعہ قانون پر کل منگل اور آج بدھ کے روز بھی شدید تنقید جاری رہی۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کئی ملکی اور غیر ملکی اداروں اور اسرائیلی اپوزیشن نے بھی حکومت پر بہت بلند آواز تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نئے قانون کی منظوری کے ساتھ نیتن یاہو حکومت نہ صرف ’لوگوں کے خیالات کو کنٹرول‘ کرنے کی کوشش کر رہی ہے بلکہ یہ قانون سازی اسرائیل کی بین الاقوامی ساکھ کو بھی بری طرح متاثر کر رہی ہے۔
سنی عرب ریاستوں کا اصل دشمن ’ایران‘ ہے، اسرائیلی وزیر خارجہ
امریکا کا دو ریاستی حل سے پیچھے ہٹنا غیر ذمہ دارانہ ہے، فلسطینی رہنما
اسرائیلی وزیراعظم فلسطینی ریاست کے قیام کے خلاف، وزیر
یہ قانونی مسودہ ملکی پارلیمان میں 28 کے مقابلے میں 46 ارکان کی اکثریتی حمایت سے منظور کیا گیا۔ پارلیمان کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق اس قانون کے تحت ایسے غیر ملکیوں کو اسرائیل میں داخل ہونے سے روک دیا جائے گا، جنہوں نے اسرائیل کا بائیکاٹ کر رکھا ہو یا اس کی حمایت کا اعلان کیا ہو۔
پارلیمانی بیان کے مطابق، ’’ایسے افراد کو اسرائیل کے ویزے یا اسرائیل میں رہائش کے اجازت نامے نہیں دیے جائیں گے، جنہوں نے اسرائیلی ریاست کے بائیکاٹ کی دانستہ اپیل کی ہو یا اس بائیکاٹ میں اپنی شمولیت کا اعلان کیا ہو۔‘‘
نیوز ایجنسی اے ایف پی نے لکھا ہے کہ اس نئے قانون کا اطلاق اسرائیلی شہریوں یا اس ملک میں مستقل بنیادوں پر رہایش پذیر غیر ملکیوں پر نہیں ہو گا بلکہ اس کی زد میں زیادہ تر وہ افراد آئیں گے، جو اسرائیل کے ریاستی بائیکاٹ کے حامی اداروں کے ارکان یا اسرائیل مخالف مہم کے کارکن ہیں۔
ملکی کابینہ کے وزراء نے اسرائیل کے بائیکاٹ کی مہم کے پس منظر میں اس قانونی مسودے کی منظوری کے بعد اس کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ قانون سازی ضروری ہو گی تھی۔ اسرائیل کے بائیکاٹ کی مہم، جو حال ہی میں کافی زیادہ مقبولیت حاصل کر چکی ہے، کی دلیل ہے کہ اس یہودی ریاست کا مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر نصف صدی سے جاری قبضے کی وجہ سے بائیکاٹ کیا جانا چاہیے۔
نئی یہودی بستیوں کی تعمیر امن میں ’مددگار‘ نہیں ہو گی، امریکا
اسرائیل نے آباد کاری کے متنازعہ قانون کی منظوری دے دی
ٹرمپ کی حمایت؟ اسرائیل میں سینکڑوں یہودی گھروں کی تعمیر کی منظوری
خود اسرائیل اس مہم کو اپنے لیے ایک اسٹریٹیجک خطرہ اور سامیت دشمنی کا نتیجہ قرار دیتا ہے۔ اس کے برعکس اس مہم کے سرگرم کارکنوں کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ اسرائیل مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر اپنا قبضہ ختم کر دے۔ یہ مہم اسرائیل کے بائیکاٹ، وہاں سرمایہ کاری روک دینے اور اس ریاست پر پابندیاں لگانے کے مطالبے کرتی ہے۔
فلسطینی علاقوں پر قبضے کی وجہ سے اسرائیل کو اپنے خلاف بائیکاٹ کی اپیلوں کو سامنا یوں تو عشروں سے رہا ہے تاہم اب بی ڈی ایس یا ’بائیکاٹ، ڈِس انویسٹمنٹ، سینکشنز‘ نامی مہم پچھلے چند برسوں کے دوران کافی زور پکڑ چکی ہے اور اس میں راجر واٹرز جیسی مشہور بین الاقوامی شخصیات بھی شامل ہو چکی ہیں۔
دوسری طرف اس مہم کے خلاف وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دور حکومت میں اسرائیلی سیاستدان بھی بہت فعال ہو چکے ہیں اور یہ نئی قانون سازی انہی بی ڈی ایس مخالف حکومتی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اسرائیل میں موجودہ نیتن یاہو حکومت وہاں آج تک اقتدار میں آنے والی دائیں بازو کی طرف سب سے زیادہ جھکاؤ رکھنے والی حکومت بھی ہے۔