مشرق وسطیٰ امن مذاکرات کی بحالی کے لئے سپین سرگرم
11 اپریل 2010اس ضمن میں جون میں ہسپانوی شہر بارسیلونا میں ایک کانفرنس بھی منعقد کی جائے گی۔ اس بین الاقوامی کانفرنس میں چالیس سے زائد سربراہان مملکت کی شرکت متوقع ہے۔ یہ کانفرنس دراصل بحیرہء روم کے ممالک کے اتحاد کا دوسرا سالانہ اجلاس بھی ہوگا۔ یہ اتحاد دو سال قبل پیرس میں فرانس اور مصر کی کوششوں سے بنایا گیا تھا۔
اس اہم کانفرنس میں مشرق وسطیٰ کے تنازعے سے براہ راست طور پر وابستہ اہم ترین فریقین مثلاً اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو، فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس اور شامی صدر بشار الاسد کی شرکت بھی متوقع ہے۔ امن مذاکرات کی بحالی میں سپین کی کوششیں اس لحاظ سے بھی اہمیت کی حامل ہیں کیونکہ سپین رواں ششماہی کے لئے یورپی یونین کا سربراہ ملک ہے۔
ہسپانوی وزیر خارجہ Miguel Angel Moratinos کے بقول انہوں نے امن مذاکرات کی بحالی کے سلسلے میں دو قلیل المدتی اہداف مقرر کئے ہیں، اول امریکی نگرانی میں اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے مابین مذاکرات بحال کرنا اور دوئم بارسیلونا میں منعقد ہونے والی کانفرنس کو کامیاب بنانا۔
اسی ضمن میں سپین کے وزیر اعظم روڈ ریگیز اور لبنانی وزیراعظم سعد الحریری کے درمیان ہوئی ملاقات میں بھی اسرائیل پر مذاکرات کے لئے سازگار ماحول پیدا کرنے کے لئے زور دیا گیا۔
الحریری نے مشرق وسطیٰ کی صورتحال کو ایران کے جوہری تنازعے سے بڑا مسئلہ قرار دیتے ہوئے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ اس جانب توجہ دے۔ ان کے بقول امن مذاکرات کی اس دوسری بڑی کوشش کی ناکامی ناقابل برداشت ہوگی اور شدت پسند پورے خطے میں پھیل جائیں گے۔
ان کا اشارہ تھا کہ عسکری گروہ دہشت گردانہ کارروائیوں کے ذریعے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے سرگرم ہوجائیں گے، جس سے پورے خطے میں بدامنی کا خطرہ پیدا ہوگا۔
الحریری نے یہ بھی واضح کیا کہ جب تک فلسطینیوں کو ایک خودمختار ریاست کے قیام کا حق نہیں دیا جاتا تب تک پائیدار امن ممکن نہیں۔
ہسپانوی وزیر اعظم روڈریگیز نے امید ظاہر کی کہ جون میں منعقد ہونے والی عالمی کانفرنس میں امن مذاکرات کی دوبارہ بحالی کے حوالے سے پیش رفت ہوسکتی ہے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: گوہر نذیر گیلانی