’مشکوک‘ دینی مدارس سے تاجک طلبا کی واپسی
24 نومبر 2010تاجکستان کے وزیر خارجہ Davlatali Nazriyev نے خبررساں ادارے روئٹرز سے گفتگو میں کہا، ’گزشتہ دو ماہ کے دوران ایران، پاکستان اور مصر سے ایک ہزار سے زائد طلباء واپس آئے۔ ان ممالک میں بے شمار مدرسے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ابھی تک غیرملکی دینی مدارس میں ڈیڑھ ہزار تاجک طلبا تعلیم حاصل کر رہے تھے، تاہم تمام طالب علموں کو واپس بلانے کا نہیں سوچا گیا تھا۔ انہوں نے کہا، ’ہم صرف مشکوک مدرسوں میں پڑھنے والے طلباء کو واپس لا رہے ہیں۔ اکثراوقات ایسے مدرسے پوشیدہ ہوتے ہیں۔‘
تاجکستان کے صدر امام علی رحمان نے رواں برس اگست میں والدین پر زور دیا تھا کہ وہ بیرون ممالک مذہبی سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے اپنے بچوں کو واپس بلا ئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان میں سے بیشتر سکول دراصل مذہبی نہیں ہیں۔
اس وقت صدر نے کہا تھا، ’آپ کے بچے انتہاپسند اور دہشت گرد بن جائیں گے۔ وہ تاجک قوم کے دشمن اور غدار بن کر ابھریں گے۔‘
دوسری جانب اپوزیشن جماعت اسلامک ریوائول پارٹی نے خبردار کیا ہے کہ بیرون ملک سے تعلیم ترک کر کے وطن لوٹنے والے طلبا کو اندرون ملک مذہبی تعلیم جاری رکھنے کا اچھے مواقع میسر نہ آئے تو وہ اسلام کے انتہاپسندانہ نظریات اپنا لیں گے۔
اس وسطی ایشیائی ریاست کو 1990ء کی دہائی میں سیکولر حکومت اور اسلامی اپوزیشن کے درمیان خانہ جنگی کا سامنا رہا ہے۔ یہ ابھی تک سابق سوویت ریاستوں میں سے پسماندہ ترین ہے اور ہمسایہ ملک افغانستان سے منشیات کی ترسیل کے لئے رُوٹ بھی بنی ہوئی ہے۔
روئٹرز نے تجزیہ کاروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ اقتصادی و سماجی مسائل اور اسلام کے خلاف سوویت طرز کا سرکاری کریک ڈاؤن ایسی وجوہات ہے، جن کے باعث وہاں کے عوام اسلام کے انتہاپسندانہ نظریات کی جانب مائل ہو رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بنیادی طور پر 70 لاکھ آبادی والے اس ملک کے عوام سیکولر نظریات رکھتے ہیں۔
رواں برس ستمبر سے تاجکستان کی فوج ملک کے مشرقی پہاڑی علاقوں میں اسلام پسند باغیوں کے خلاف لڑ رہی ہے۔ یہ علاقہ اسلامی اپوزیشن کا روایتی گڑھ ہے۔ اس عرصے میں 40 فوجی اور 25 باغی ہلاک ہو چکے ہیں۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: افسر اعوان