ملکہٴ ترنم نورجہاں ایک بے مثل فنکارہ
23 دسمبر 2017ملکہٴ ترنم نورجہاں کو گو اس جہاں سے گزرے ہوے سترہ برس ہو چکے ہیں لیکن ان کی آواز آج بهی زندہ ہے اور ہمیشہ ہماری سماعتوں میں رس گهولتی رہے گی۔ موسیقار نوشاد کےبقول ’الله نے جو آواز ملکہٴ ترنم نورجہاں کو عطا فرمائی وه کسی اور کو نصیب نہیں ہوئی‘۔
خوبصورت آواز کے ساتھ ساتھ کلاسیکی موسیقی کی باقاعده تعلیم اور بےپناہ ریاض یا مشق نے ان کو قدرت کی جانب سے ودیعت کردہ گائیکی کی صلاحیتوں کو جِلا بخشی۔ انہوں نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم بچپن سے حاصل کرنا شروع کر دی تھی۔
’’ایئر گٹار‘‘ کی عالمی چیمپئن شپ، پاکستانی فنکار کیوں نہ جیت سکا؟
پاکستانی کلاسیکی فلم، بھارتی فلمی میلے سے باہر
پاکستانی فنکاروں پر پابندی، بالی وُڈ بٹ گیا
بھارت: پاکستانی ڈرامے بند کرنے کا فیصلہ
اُن کے ابتدائی اساتذہ میں ایک نام غلام نبی چشتی کا ملتا ہے اور ان ہی کی کوششوں سے وہ لاہور منتقل ہوئیں۔ غلام نبی چشتی پنجابی موسیقار گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ فلم نگری میں داخل ہونے سے قبل چھوٹی عمر ہی میں انہوں نے موسیقی کی مختلف محفلوں میں گیت گانے کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ کئی ماہرین موسیقی کا کہنا ہے کہ جتنی بڑی وہ گلوکارہ تھیں، انہیں بظاہر اُس مرتبے کا کوئی استاد نہیں ملا۔
ملکہٴ ترنم نورجہاں برصغیر پاک و ہند کے عظیم مغنی و گائیک استاد بڑے غلام علی خان کو اپنا باقاعدہ استاد تسلیم کرتی رہی ہیں۔ تاہم بعض ماہرین کے مطابق یہ ایک روحانی تعلق تھا۔ اس طرح پٹیالہ اسکول کے رنگ کو ان کی گائیکی میں خیال اور ٹھمری کے ساتھ ساتھ غزل اور گیت میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔
برصغیر پاک و ہند کے ماہرینِ موسیقی کا اتفاق ہے کہ ملکہٴ ترنم نورجہاں کے گانے کے خوّاص کا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ چند نمایاں خوبیوں میں آکار یعنی کهلے گلے سے گانا، الفاظ کی ادائیگی، نیچے اور اوپر کے سروں میں یکساں مہارت کے ساتھ گانا شامل ہیں۔
وہ ایسی پہلی گلوکارہ تھیں جنہوں نے کسی فلم کے لیے قوالی اور نظم (مجھ سے پہلی سے محبت) کو بھی اپنی مترنم آواز بخشی۔ وہ غزل بھی خوب نبھاتی تھیں لیکن فلموں کے لیے گیتوں میں وہ لاثانی تھیں۔ انہیں کلاسیکی موسیقی پر بھی عبور حاصل تھا۔ اُن کے کئی گیت خالص راگوں پر مشتمل ہیں لیکن اِن کو بھی اپنی مہارت اور مشق کی وجہ سے انتہائی سہل انداز میں گا کر امر کر دیا۔