1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتعراق

موصل میں زندگی پھر عروج پر

23 جون 2024

’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خاتمے کے بعد عراقی شہر موصل میں زندگی بھر عروج پر ہے۔ دس سال قبل اس شہر پر قابض ہونے والے دہشت گرد گروہ داعش نے یہاں اسلام کے نام پر دہشت طاری کر دی تھی۔

https://p.dw.com/p/4gsWg
Bildergalerie Fest des Fastenbrechens 2024
تصویر: Khalid Al-Mousily/REUTERS

عراقی شہر موصل کے باسی صقر الزکریا نے داعش کے قبضے کے ایک برس بعد یعنی سن 2005 میں اس شہر سے فرار حاصل کر لیا تھا۔ وہ بھی دیگر شہریوں کی طرح اس دہشت گرد گروہ سے خوفزدہ ہو گئے تھے۔

سن 2017 میں داعش کو شکست دیتے ہوئے اس قدیمی شہر کو دوبارہ عراقی حکومت کی تحویل میں دے دیا گیا۔ زکریا سن 2018 میں واپس لوٹے اور انہوں نے اس شہر میں ایک کلچرل سینٹر کی بنیاد رکھی۔

زکریا نے بتایا کہ اس وقت موصل ایک مرتبہ پھر اپنی قدیمی روایات کے مطابق زندہ دل ہو چکا ہے اور یہاں لوگ امن و آشتی سے رہنے لگے ہیں۔ زکریا کو یاد ہے کہ جب وہ واپس اس شہر میں لوٹے تھے تو شہر کے مختلف علاقوں میں ہزاروں لاشیں بکھری پڑی تھیں۔

عراق میں آثار قدیمہ کا خزانہ: دجلہ کے پانیوں سے قدیم شہر دوبارہ ابھر آیا

اجتماعی قبریں اور گم شدہ افراد کی تلاش میں فرقہ واریت کا عنصر

خلافت کا اعلان اور تباہی کا آغاز

جہادی گروپ داعش نے ایک دہائی قبل موصل پر قبضہ کرنے کے بعد مسجد النوری میں اپنی خلافت کا اعلان کیا تھا۔ اس دہشت گرد گروہ نے اسلام کی انتہا پسندانہ تشریحات نافذ کیں اور اقلیتی گروہوں کے ارکان کو ہلاک کرنا شروع کر دیا۔ موسیقی پر پابندی عائد کر دی گئی تھی اور آثار قدیمہ اور تاریخی مقامات کو تباہ کر دیا گیا تھا۔

سن 2003 میں امریکی اتحادی افواج کے حملے کے بعد دریائے دجلہ کے مغربی کنارے پر واقع موصل میں داعش کا عروج ہوا اور اس شہر کی بھول بھلیوں جیسی گلیاں ہلاکتوں، اغوا اور جرائم کا مقام بن گئیں۔

عالمی سطح پر پانچ کروڑ سے زیادہ شہری تنارعات سے متاثر: اقوام متحدہ

موصل کا گن کلچر، سلامتی کی سنگینی یا شکار کا شوق

اس شہر کو دہشت گردوں سے آزاد کرانے کی عسکری کارروائی کے دوران ہزاروں شہری مارے گئے تھے۔ یہ شہر تو خیر تقریباﹰ سات سال قبل بازیاب کرا لیا گیا تھا لیکن سیاسی لڑائی، بدعنوانی کے الزامات اور تعمیر نو میں تاخیر کی وجہ سے اسے متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم اس کے باوجود دجلہ کے دونوں طرف آباد اس شہر میں اب زندگی لوٹ رہی ہے۔

زندگی لوٹ آئی لیکن شہری ڈھانچہ تباہ حال

اس شہر کے دو درجن سے زائد رہائشیوں نے روئٹرز کو بتایا کہ وہ گزشتہ دو دہائیوں میں کسی بھی وقت کے مقابلے میں آج خود کو زیادہ محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔

نذر الخیاط نامی ایک بزرگ نے بتایا، ''یہ موصل ہے۔ کچھ بھی ہو جائے، یہ ہمیشہ تہذیب کا گہوارہ رہے گا۔‘‘ اس سابق اسکول ٹیچر کے بقول اس شہر نے بہت بربادیاں دیکھی ہیں لیکن یہاں کی ثقافت ہمیشہ ہی ایک مثال رہی ہے۔

داعش کا قبضہ ختم ہونے کے بعد موصل میں ریڈیو مقبول

موصل کی لڑائی میں نو ہزار سے زائد عام شہری ہلاک ہوئے

تاہم ماہرین اور شہر کی انتظامیہ اعتراف کرتے ہیں کہ اس شہر کو داعش کی تباہ کاریوں سے مکمل طور سے نکالنے میں ابھی کافی وقت لگے گا۔ داعش کے دور میں یہ تاریخی شہر کھنڈر میں بدل گیا تھا تاہم اب اس کی تعمیرنو اور بحالی کا کام جاری ہے۔

اگرچہ زندہ دلان موصل نے اس شہر کی ثقافت کو دوبارہ اسی بلندی پر لا کھڑا کیا ہے، جو اس شہر کی پہچان ہے تاہم شہری انفراسٹرکچر کو دوبارہ تعمیر کرنا ایک مشکل مرحلہ ہے۔ واضح رہے کہ داعش کو شکست دینے کے سات سال بعد بھی اس شہر کا ملبہ ابھی تک صاف کیا جا رہا ہے۔

ع ب / م م (روئٹرز)

موصل میں زندگی کی رونقیں لوٹ رہی ہیں