چارلس سوئم کی مشکلات سے گھری میراث
12 ستمبر 2022جمعہ نو ستمبر کو پہلی بار بطور برطانوی بادشاہ چارلس سوئم نے وزیر اعظم لز ٹرس سے ملاقات کے دوران تخت برطانیہ مں آنے والی تبدیلی کے بارے میں بات چیت کی تھی۔ اس موقع پر ان کا انداز خطابت ماضی کے مقابلے میں زیادہ جذباتی تھا اور انہوں نے کہا، ''یہ وہ لمحہ ہے جس سے میں ہمیشہ سے خوفزدہ تھا۔‘‘
اُسی شام برطانوی باشندوں سے خطاب کرتے ہوئے بادشاہ چارلس سوئم نے اپنی والدہ کے انتقال پر گہرے صدمے اور اداسی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے جذبات اور عوام سے بطور بادشاہ رسمی وعدے کے درمیان توازن رکھنے کا مظاہرہ بھی کیا۔ انہوں نے اپنی رعایا کو یقین دلایا کہ وہ اپنی والدہ کی طرح وفاداری کا ثبوت دیں گے اور عوام کی خدمت کریں گے، اُسی طرح جس طرح ملکہ الزبتھ ثانی نے 70 برس تک کیا۔
نئے بادشاہ کے لیے بہت کچھ نیا
ہر دلعزیز سابقہ شہزادی لیڈی ڈیانا کی موت کے بعد کی دہائی میں اُس وقت کے پرنس چارلس کے لیے حالات بہت مختلف تھے۔ اُس وقت پرنس چارلس کی ساکھ کافی کمزور تھی اور کامیلا عوام میں انتہائی ناپسندیدہ شخصیت تھیں۔ پچھلی دہائی کے وسط میں، صرف ایک چوتھائی برطانوی باشندے پرنس چارلس کو تخت کے وارث کے طور پر تسلیم کرنا چاہتے تھے۔ بہت سے لوگوں نے تو انہیں ڈیانا کی موت کا ذمہ دار ٹھہرایا اور انہیں اور ان کی نئی اہلیہ کو اس اپنی منفی ساکھ کو بہتر بنانے میں کئی سال لگے۔
ناروے سے موناکو تک: بارہ یورپی بادشاہتیں، براعظموں سی متنوع
میجر چارلس میک فارلین نے ٹائی اور گہرے رنگ کے سوٹ میں ملبوس بکھنگم پیلس کے دروازے کے سامنے کھڑے ہو کر ملکہ کو خراج عقیدت پیش کیا۔ وہ ملکہ الزبتھ ثانی کے رسمی گارڈ کا حصہ تھے اور ابھی دو ہفتے قبل ہی اپنی خدمات کی انجام دہی سے سبکدوش ہوئے تھے۔ انہیں تاہم پورا یقین ہے کہ ''چارلس سوئم ایک اچھے بادشاہ ثابت ہوں گے۔‘‘ برطانیہ کا شاہی گھرانہ گزشتہ کئی سالوں میں مسلسل تبدیلی کے مراحل سے گزرتا رہا ہے لیکن اب تخت کا وارث ایک نئے اور مختلف وقت کا بادشاہ ہوگا۔‘‘
جدیدیت کی محتاط کوششیں
چارلس سوئم کو جدیدیت اور شاہی محل کے قدیم تصورات کے مابین توازن کا خاص طور پر خیال رکھنا ہوگا۔ اپنی والدہ ملکہ الزبتھ ثانی کے انتقال کے بعد سے وہ جذبات کا اظہار اور اپنے نئے کردار کو واضح طور پر سمجھنے کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
شہزادی ڈیانا سے انٹرویو کے لیے بی بی سی صحافی کی 'دھوکہ دہی‘ ثابت
ماحولیاتی تحفظ کے لیے سرگرم تنظیموں، روایتی زراعت، فن تعمیر اور دیگر خود منتخب کردہ کاموں کو بادشاہ چارلس سوئم اب ماضی کی طرح جاری نہیں رکھ پائیں گے کیونکہ برطانیہ میں آئینی بادشاہت کے قوانین میں اس کی ممانعت ہے۔ جہاں تک سیاسی بیانات کا تعلق ہے تو نئے بادشاہ کو شاید ملکہ کا انداز اختیار کرنا ہوگا۔ ملکہ ڈھکے چھپے انداز میں شاذ و نادر ہی اپنی رائے کا اظہار کرتی تھیں۔
سینٹ جیمز پیلس میں ہفتے کے روز منعقد ہونے والی صدیوں پرانی جانشینی کی رسمی تقریب کے موقع پر نئے بادشاہ چارلس سوئم نے واضح کر دیا کہ وہ شاہی خاندان کی رہنمائی روایتی انداز میں کرنے کے ساتھ ساتھ اکیسویں صدی میں جدیدیت کی طرف بھی گامزن ہوں گے۔ اس کی واضح نشاندہی اس امر سے ہوئی کہ انہوں نے برطانوی تاریخ میں پہلی بار سینٹ جیمز پیلس سے اس نجی تقریب کی ٹیلی وژن پر براہ راست نشریات کی اجازت دی۔ اس اقدام کو برطانوی شاہی خاندان کے آداب و رسومات پر سے پردہ ہٹانے کے مترادف سمجھا جا رہا ہے۔
یہی نہیں بلکہ پہلی بار اسکاٹ لینڈ کے وزیر اعظم نکولا اسٹرجیون نے بھی جانشینی سے متعلق دستاویز پر دستخط کیے۔ یہ ایک واضح اشارہ ہے اس طرف کہ بادشاہ چارلس سوئم اسکاٹ لینڈ کی آزادی کے خطرے سے بچنے کے لیے اور برطانیہ کو متحد رکھنے کے لیے ہر ممکن اقدام کریں گے۔
پرنس فیلپ کی آخری رسومات، ’شجاعت‘ اور ملکہ سے ’وفا‘ کے لیے مدح سرائی
چارلس کے بارے میں کوئی برُے الفاظ نہیں
لندن کے ٹیکسی ڈرائیوروں سے لے کر شاہی محل کے ارد گرد واقع اطالوی ریستورانوں کے ویٹروں تک کہیں بھی نئے بادشاہ چارلس کے بارے میں کوئی بُرے یا منفی الفاظ سننے کو نہیں مل رہے۔ عوام میں ایک ہی تاثر پایا جاتا ہے کہ چارلس انتہائی تجربہ کار ہیں اور وہ اپنی ذمہ داریاں بخوبی انجام دیں گے۔
بادشاہ چارلس کو جو ایک مزید چیلنج کا سامنا ہوگا اس کا تعلق دولت مشترکہ اور سلطنت کو زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے کے ساتھ مربوط رکھنے سے ہے۔ نیز اپنے اختیارات سے تجاوز نہ کرتے ہوئے بادشاہت کو جدید بنانے کا عظیم کام بھی انہیں کرنا ہوگا۔ ساتھ ساتھ، چارلس سوئم کو اپنے بیٹوں ولیم اور ہیری کے ساتھ صلح کرنے کی بھی کوشش کرنا ہوگی اور اسی امر کو نئے بادشاہ کا ابھی تک کا سب سے بڑا امتحان بھی سمجھا جا رہا ہے۔ یہ بات مشہور ہے کہ اس کام میں تو ملکہ الزبتھ بھی کامیاب نہیں ہو سکی تھیں۔
باربرا ویزل (ک م/ اب ا)