1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ٹرمپ نے بہت دیر سے فیصلہ کیا، جو نقصان ہونا تھا ہو گیا‘

21 جون 2018

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے میکسیکو کی سرحد پر تارکین وطن سے انکے بچے الگ کرنے کے قانون پر عمل درآمد کو روک دیا ہے۔ انسانی حقوق کے علمبرداروں کے مطابق ٹرمپ کے بہت دیر سے کیے جانے والے اس فیصلے کے اثرات بہت ہی محدود ہیں۔

https://p.dw.com/p/3015R
تصویر: picture-alliance/dpa/J.Lamberti

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غیر قانونی تارکین وطن سے ان کے بچے الگ کرنے کی پالیسی کے خاتمے کے اعلان کے چند گھنٹوں کے بعد اوگو کاسترو نے کہا ہے کہ وہ سان ڈیاگو میں ہونے والے مظاہرے میں شرکت کرے گا۔ کاسترو تارکین وطن کے حقوق کے لیے سرگرم ہیں۔ اس ویک اینڈ پر ہونے والے اس مظاہرے کا عنوان ہے، ’’ فمیلیز بیلونگ ٹوگیدر‘‘۔

اسی طرح بارڈر اینجلز نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کی تیخوآنا نے کہا، ’’یہ بہت نہیں ہے۔‘‘ ان کے بقول ٹرمپ کے اس عارضی حکم نامے کو قانون میں بدلنے کی ضرورت ہے۔

USA Protest gegen die Trennung von Flüchtlingsfamilien
تصویر: DW/C. Richardson

 ٹرمپ نے کنبوں کو جبری طور پر علیحدہ کرنے کے حوالے سے کہا ہے کہ وہ یہ نہیں دیکھ سکتے کہ بچوں کو والدین سے جدا کیا جائے۔ ان کے بقول ایگزیکٹو آرڈر جاری کرنے کا فیصلہ مشکل تھا لیکن یہ ہمدردی کے تقاضوں کے تحت کیا گیا ہے۔ اس نئے حکم نامے کے تحت اب غیر  قانونی تارکین وطن کے بچوں کو ان کے والدین کے ساتھ ہی قید کیا جائے گا۔

گزشتہ ہفتوں کے دوران امریکی حکام نے میکسیکو کی سرحد پر کئی خاندانوں کو امریکا میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے کے الزام میں حراست میں لیا۔ ان میں زیادہ تر افراد کا تعلق وسطی اور جنوبی امریکی ممالک سے ہے۔ امریکی قانون میں بچوں کو والدین کے ساتھ قید میں رکھنے کی اجازت نہیں۔ اس قانون کو تبدیل کرنے کے لیے کئی مرتبہ کوششیں کی جا چکی ہیں، جو بے سود ثابت ہوئیں۔

تارکین وطن خاندانوں کو ایک دوسرے سے الگ نہ کرنے کے حوالے سے آج کانگریس میں دو قراردادوں پر رائے شماری ہو رہی ہے۔ ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایوان نمائندگان کے اسپیکر پاؤل رائن کے بقول، ’’ہم یہ نہیں چاہتے کہ والدین سے ان کے بچے چھین لیے جائیں۔ امیگریشن قانون کو تبدیل ہونا چاہیے۔‘‘

 انہوں نے مزید کہا کہ قرارداد کے مسودے میں یہ تجویز کیا گیا ہے کہ جب تک والدین کے خلاف غیر قانونی داخلے کی عدالتی کارروائی پوری نہیں ہو جائے، خاندان کو ایک دوسرے سے الگ نہ کیا جائے۔‘‘