پاپائے روم نے جرمن بشپ کا استعفیٰ منظور کر لیا
8 مئی 2010اس نئی پیش رفت سے کلیسائے روم ایک بار پھر بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی سرخیوں کا موضوع بنا گیا ہے، کیونکہ دنیا کے کئی ملکوں میں حالیہ ہفتوں اورمہینوں میں کیتھولک مسیحی چرچ کو ان واقعات اور سکینڈلز کی وجہ سے پہلے ہی تنقید کا سامنا رہا ہے کہ کیتھولک مذہبی اور تعلیمی اداروں میں کئی کلیسائی نمائندے سالہا سال تک بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے مرتکب ہوتے رہے۔
والٹر مِکسا نے اپنے خلاف اپریل میں اس نوعیت کے الزامات کے منظر عام پر آتے ہی پوپ بینیڈکٹ شانزدہم کو اپنے مستعفی ہونے کی پیشکش کر دی تھی۔ تاہم پاپائے روم نے تب فوری طور پر ان کی یہ پیشکش ٹھکرا دی تھی۔
اب ویٹیکن نے باویریا میں آؤگسبرگ کے اس بشپ کا استعفیٰ اس لئے منظور کر لیا ہے کہ جرمنی میں دفتر استغاثہ کی جانب سے ان کے خلاف ابتدائی تحقیقات کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے۔
انہترسالہ والٹر مِکسا پر لگائے جانے والے الزامات میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ اپنی کلیسائی حیثیت میں مبینہ طور پر مالی بے قاعدگیوں کے مرتکب بھی ہوئے تھے۔ تاہم ان کے خلاف اخلاقی اور مجرمانہ لیکن بہت سنجیدہ نوعیت کے الزامات میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ 1996ء سے 2005ء تک جنوبی جرمن صوبے باویریا میں بشپ کے طور پر اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے مرتکب ہوئے تھے۔
خود والٹر مِکسا اپنے خلاف ایسے تمام الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ ان کے وکیل گیرہارڈ ڈَیکر کے بقول بشپ مِکسا اپنے خلاف الزامات کی چھان بین کے عمل میں دفتر استغاثہ کے ساتھ مکمل تعاون کریں گے۔ اپریل میں اپنے خلاف ان الزامات کے پہلی مرتبہ منظر عام پر آنے کے بعد بشپ مِکسا نے واضح طور پر کیا تھا: ’’میں اس امر کی یقین دہانی کرانا چاہتا ہوں کہ میں آج تک بچوں یا نوجوانوں سے جسمانی یا جنسی نوعیت کے واقعات سمیت کسی بھی طرح کے پر تشدد رویے کا مرتکب نہیں ہوا۔‘‘
بین الاقوامی سطح پر کیتھولک کلیسائی اداروں میں مذہبی شخصیات کی طرف سے بچوں سے جنسی زیادتی کے بہت سے واقعات کے منظر عام پر آنے کے بعد اب تک جتنی بھی اعلیٰ شخصیات مستعفی ہوئی ہیں، ان میں سے والٹر مِکسا اپنی ذمہ داریوں سے مستعفی ہونے والے پہلے جرمن بشپ ہیں۔
انہی اسکینڈلز کی وجہ سے جرمنی میں ایک حالیہ سروے کے مطابق کیتھولک مسیحی عقیدے کا حامل ہر چوتھا جرمن باشندہ یہ سوچ رہا ہے کہ وہ اپنی کلیسائی رکنیت ترک کر دے۔
رپورٹ : مقبول ملک
ادارت : عاطف توقیر