پاک افغان فوجی حکام کے مابین اتفاق رائے
3 جولائی 2014یہ اتفاق رائے پاکستان اور افغانستان کے فوجی حکام کے درمیان پاک افغان سرحدی انتظام کو بہتر بنانے کے لیے آج جمعرات کو راولپنڈی میں ہونے والے ایک اجلاس میں کیا گیا۔
افغانستان کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز میجر جنرل افضل امان کی سربراہی میں افغان سلامتی کونسل، ملٹری انٹیلیجنس اور بارڈر پولیس کے افسران پر مشتمل وفد جمعرات ہی کو اسلام آباد پہنچا تھا۔ افغان وفد نے جی ایچ کیو میں پاکستان کے ڈی جی ملٹری آپریشنز میجر جنرل عامر ریاض کی قیادت میں پاکستانی فوجی اور انٹیلیجنس حکام کے وفد سے ملاقات کی۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ایک بیان کے مطابق اجلاس کے شرکاء کو سرحدی رابطہ کاری سے متعلق تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ بیان کے مطابق اجلاس میں افغان صوبوں کنٹر اور نورستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں اور وہاں سے پاکستان کی سرحدی چوکیوں اور دیہات پر کیے جانے والے حملوں کا معاملہ زیر بحث آیا۔ اجلاس میں سرحد پر شیلنگ کے معاملے پر بھی بات چیت کی گئی۔ پاکستانی حکام نے افغان وفد کو آگاہ کیا کہ پاکستان صرف اپنے دفاع میں جوابی کارروائی کرتا ہے اور کبھی بلااشتعال فائرنگ نہیں کی گئی۔
پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے افغان وفد کے اس دورے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان افغانستان پر زور دیتا آیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے سرحد کا بندوبست بہتر بنائے تاکہ دہشت گرد فرار ہو کر سرحد پار افغان علاقوں میں نہ جا سکیں اور نہ ہی پاکستان پر حملوں کے لیے افغان سر زمین کو استعمال کیا جا سکے۔
ترجمان کے مطابق افغان عہدیداروں کی جانب سے پاکستانی فوج پر افغان سرحد کی خلاف ورزی کے الزامات بے بنیاد ہیں۔ تسنیم اسلم نے کہا، ’’یقیناﹰ ہم نے متعدد بار اپنے محتاط رد عمل میں کہا ہے کہ افغان حکام کے بیانات بے بنیاد ہیں۔ یہ الزامات کافی عرصے سے لگائے جا رہے ہیں۔ ہمیں کبھی ایسے ثبوت فراہم نہیں کیے گئے جن کی بنیاد پر ان الزامات کو سچ ثابت کیا جا سکے۔‘‘
اس افغان وفد کی اسلام آباد آمد قومی سلامتی کے افغان مشیر ڈاکٹر رنگین دادفرسپانتا کے گزشتہ ہفتے کے دورہء پاکستان کا تسلسل ہے۔ افغان مشیر کے دورے کے دوران سرحد پر انتظامات کو بہتر بنانے اور ایک دوسرے کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے فوجی حکام کی یہ ملاقات طےکی گئی تھی۔ دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) سعد کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان نے ایک دوسرے پر الزام تراشی کا سلسلہ ختم نہ کیا تو دونوں کو ہی ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑے گا۔
انہوں نے کہا، ’’جیسے افغانستان اپنے تمام معاملات پاکستان پر ڈال دیتا ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے کہ یہاں سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا اگر پاکستان ٹھیک ہو جائے۔ اسی طرح ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ یہ ہماری پالیسیوں کا نتیجہ ہے جس کو ہم ابھی بھگت رہے ہپں۔ میرے خیال میں مسائل ہوں گے۔ اس لیے میں نے کہا کہ ان مسائل کا مکمل حل چاہیے تو پاکستان اور افغانستان کو ایک دوسرے سے تعاون کا مظاہرہ کرنا ہو گا، جو فی الحال مجھے اتنا زیادہ نظر نہیں آ رہا۔‘‘
عسکری ذرائع کے مطابق اجلاس میں شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف جاری پاکستانی فوج کی کارروائیوں کے دوران افغان سرحد کر سیل کر دینے اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ ملا فضل اللہ کو پاکستان کے حوالے کرنے سے متعلق بھی بات چیت کی گئی۔