انسانی اسمگلنگ: پاکستان نوجوان مسافروں کی نگرانی کرے گا
23 جنوری 2025جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق کم از کم دو اہلکاروں کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ امیگریشن حکام 15 سے 40 سال کی عمر کے تمام مسافروں سے ان ممالک کے لیے پروازوں میں سوار ہونے سے پہلے پوچھ گچھ کریں گے، جنہیں مبینہ طور پر انسانی اسمگلرز ٹرانزٹ راستوں کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
جنہیں بہتر مستقبل کی تلاش موت تک لے گئی
اسپین کی طرف رواں کشتی ڈوبنے کا واقعہ، متعدد پاکستانیوں سمیت پچاس تارکین وطن ہلاک
ان اہلکاروں کا مزید کہنا تھا کہ امیگریشن کی ذمہ داری نبھالنے والے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے ہوائی اڈوں پر اپنے گراؤنڈ افسران کو ایک ایڈوائزری جاری کی ہے کہ وہ ان ممالک کو سفر کرنے والے مسافروں کے بارے میں معلومات حاصل کریں جنہیں پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کے ہاٹ اسپاٹ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
یہ ایڈوائزری حال ہی میں بحیرہ روم اور بحرالکاہل میں لیبیا اور مراکش سے غیر قانونی تارکین وطن کو یورپ لے جانے والی کشتیوں کے حادثات میں متعدد پاکستانی نوجوانوں کے ڈوبنے کے بعد جاری کی گئی ہے۔
اس بارے میں کوئی درست تخمینہ دستیاب نہیں ہے کہ ہر سال کتنے پاکستانی یورپ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن حکام کا کہنا ہے کہ یہ تعداد لاکھوں میں ہے۔
پاکستانی نوجوان انسانی اسمگلروں کو یورپ پہنچنے کے لیے لاکھوں روپے ادا کرتے ہیں۔ اکثر اس مقصد کے لیے انہیں خطرناک زمینی اور سمندری راستوں کے ذریعے سفر کرایا جاتا ہے جس میں سرحدی محافظوں کی گولیوں کا نشانہ یا ڈوب کر ہلاک ہونے کا خطرہ موجود ہوتا ہے۔
ڈی پی اے کے مطابق آذربائیجان، ایتھوپیا، کینیا، مصر، سینیگال، سعودی عرب، ایران، روس، لیبیا، موریطانیہ، عراق، ترکی اور کرغزستان وہ ممالک ہیں جو عام طور پر یورپ میں غیر قانونی امیگریشن کے لیے ٹرانزٹ روٹس کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔
ا ب ا/ع ت (ڈی پی اے)