پاکستان اور بھارت: ایٹمی تنصیبات، قیدیوں کی فہرست کا تبادلہ
1 جنوری 2022خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق اسلام آباد اور نئی دہلی میں تعینات پاکستان اور بھارت کے سفارتی مشنوں کے ذریعے ہفتہ یکم جنوری کو ایک دوسرے کے ملکوں کی جیلوں میں قیدیوں کی تفصیلات کا تبادلہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ دونوں اطراف سے جاری کردہ بیان میں بتایا گیا ہے کہ تین دہائیوں کے لیے طے کیے گئے ایک معاہدے کے تحت جوہری اثاثوں اور تنصیبات کے بارے میں بھی معلومات شیئر کی گئیں۔
پاکستان میں کتنے بھارتی قید؟
پاکستان نے بھارت کے ایک اعلیٰ سفارتکار کو ملکی جیلوں میں قید 628 بھارتی قیدیوں کی تفصیلات فراہم کیں، جس میں 577 ماہی گیر شامل ہیں۔ ان مقید ماہی گیروں پر پاکستان کی سمندری حدود میں غیر قانونی ماہی گیری کے الزام عائد ہیں۔
دونوں روایتی حریف سن 2008 کے معاہدے کے تحت قیدیوں کو قونصلر رسائی فراہم کرنے کے پابند ہیں۔ اسی معاہدے کے تحت ہر سال جنوری اور جولائی میں ملکی جیلوں میں قید ایک دوسرے کے شہریوں کی فہرست کا تبادلہ لازمی کیا جاتا ہے۔
بھارت میں کتنے پاکستانی قید؟
بھارت کی طرف سے بھی ہمسایہ ملک کے قیدیوں کی تفصیلات شیئر کی گئیں، جس کے مطابق بھارت میں کل 282 پاکستانی قیدی اور 73 ماہی گیر قید ہیں۔ تاہم بھارت نے اپنے تحویل میں موجود پاکستانی شہریوں کی تفصیلات نہیں بتائیں۔
سن 2021 میں بھارتی جیلوں میں 263 پاکستانی قیدی اور 77 ماہی گیر قید تھے، جبکہ پاکستان میں 277 بھارتی ماہی گیر اور دیگر 59 قیدی موجود تھے۔
ماہی گیروں کی گرفتاریاں
دونوں ممالک ایک دوسرے کے ماہی گیروں کو سمندری حدود کی خلاف ورزی کرنے کے نتیجے میں گرفتار کرتے ہیں۔ عام طور پر یہ ماہی گیر جدید نیویگیشن ٹیکنالوجی نہ ہونے کے سبب مچھلیاں پکڑنے کے لیے ہمسایہ ملک کے پانیوں میں داخل ہوجاتے ہیں۔ بحریہ کی سکیورٹی فورسز ان بھٹکے ہوئے ماہی گیروں کی کشتیاں ضبط کر کے انہیں جیلوں میں ڈال دیتی ہیں۔ بعد ازاں ان ماہی گیروں کو دونوں ممالک کے مابین مذاکرات کے بعد رہا کر دیا جاتا ہے۔ عام طور پر یہ ماہی گیر کئی سال بغیر کسی عدالتی کارروائی کے جیلوں میں گزار دیتے ہیں۔
بھارت اور نہ ہی پاکستان کی جانب سے دیگر شہری قیدیوں کی تفصیلات فراہم کی گئیں ہیں۔ دونوں ملکوں میں گرفتاریاں اکثر ویزا کی طے شدہ مدت سے زیادہ قیام اور ایسے شہروں یا مقامات کا سفر ہوتا ہے، جہاں جانے کی انہیں اجازت نہیں دی جاتی۔
جوہری اثاثوں کی فہرست
جنوبی ایشیا میں جوہری ہتھیاروں کے حامل روایتی حریفوں نے اپنے اپنے جوہری اثاثوں اور تنصیبات کی فہرست کا بھی تبادلہ کیا ہے۔ یہ عمل دسمبر سن 1988 میں طے کیے گئے جوہری تنصیبات اور اثاثوں پر حملہ نہ کرنے کے معاہدے کا حصہ ہے۔ کسی بھی فریق کی جانب سے جوہری تنصیبات اور اثاثوں کے تبادلے کی مزید تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔ لیکن یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ فہرست پہلے سے اعلان کردہ جوہری تنصیبات پر مشتمل ہے۔
پاک بھارت تعلقات
سن 1947 میں برطانوی راج سے آزادی کے بعد سے کشمیر کے متنازعہ خطے کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کشیدگی کا شکار ہی رہے ہیں۔ کشمیر کا خطہ دونوں ممالک کے درمیان تقسیم ہے، اور دونوں ہی اس پر مکمل کنٹرول کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ پاک بھارت تعلقات میں اس وقت مزید تناؤ بڑھ گیا جب اگست سن 2019 میں مودی حکومت نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کردیا تھا۔
ع آ / ا ب ا (اے پی)