1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: تحریک عدم اعتماد کے لیے پارلیمانی اجلاس طلب

20 مارچ 2022

پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے لیے پارلیمانی اجلاس طلب کرلیا گیا ہے۔ اس حوالے سے قومی اسمبلی کا اجلاس 25 مارچ کو منعقد ہوگا۔

https://p.dw.com/p/48kly
فائل فوٹو: پاکستانی وزیراعظم عمران خان قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے
فائل فوٹو: پاکستانی وزیراعظم عمران خان قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئےتصویر: picture-alliance/Photoshot

پاکستان کی قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی درخواست پر وزیراعظم عمران خان کے خلاف  عدم اعتماد کی تحریک  پیش کرنے کے لیے اجلاس جمعہ 25 مارچ کو بلایا گیا ہے۔ اسپیکر قومی اسمبلی کے دفتر سے جاری کردہ بیان کے مطابق اسلام آباد میں شروع ہونے والے دو روزہ اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے 48ویں اجلاس کی وجہ سے پارلیمانی اجلاس میں چند روز کی تاخیر کی گئی ہے۔

رواں ماہ حزب اختلاف کی جماعتوں نے  وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد  کی خاطر اجلاس بلانے کی درخواست اسپیکر کو جمع کرائی تھی۔ آئینی طور پر اسپیکر اس درخواست پر 14 دنوں کے اندر اجلاس بلانے کا پابند ہے اور یہ مدت کل پیر 21 مارچ کو ختم ہو رہی ہے۔

پی ٹی آئی حکومت بمقابلہ متحدہ اپوزیشن

وزیراعظم عمران خان کو عدم اعتماد کی تحریک سے بچنے کے لیے ایوان زیریں کے 342 ميں سے 172 ارکان کی حمایت حاصل کرنا ہوگی جبکہ متحدہ اپوزیشن  کے پاس پارلیمنٹ کی 163 نشستیں ہیں۔ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے قانون سازوں کی تعداد 155 ہے اور حکومت ميں رہنے کے ليے اسے کوليشن پارٹنرز کی ضرورت ہے۔

اس کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف کے منحرف ارکین بھی  قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک  کے دوران فیصلہ کن کردار ادا کریں گے۔

عمران خان کے لیے مشکلات

سن 2018 میں وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے والے عمران خان کی حکومت  اپنے مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے۔  اپوزیشن   وزیراعظم عمران خان پر ملکی معیشت اور خارجہ پالیسی بگاڑنے کا الزام عائد کرتی ہے، جسے وہ مسترد کرتے ہیں۔ يہ امر اہم ہے کہ پاکستان کی تاريخ ميں عدم اعتماد کی تحريک کے ذريعے آج تک کسی وزير اعظم کو نہيں ہٹايا گيا۔

فوج اب خان کی حمايت ميں کھڑی ہے يا نہيں؟

پاکستانی فوج  کی جانب سے پہلے ہی کہا جاچکا ہے کہ موجودہ سياسی بحران  سے اس کا کوئی لينا دينا نہيں اور وہ کسی جماعت کی حمايت يا مخالفت نہيں کرتی۔ سیاسی مبصرین البتہ فوج کے 'نيوٹرل‘ رہنے کے دعوے سے متفق نہيں۔ تجزيہ کاروں  کی رائے ميں سن 2018 ميں خان کو حکومت ميں لانے ميں بھی فوج کا کردار تھا لیکن فوج اور عمران خان دونوں ہی اس تاثر کو رد کرتے آئے ہیں۔

ع آ / ا ب ا (روئٹرز، اے پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں