پاکستان کی ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کی امید
8 جون 2022فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا آئندہ اجلاس جرمن دارالحکومت برلن میں تیرہ جون سے سترہ جون تک جاری رہے گا۔ فرانس میں ڈی ڈبلیو کے نمائندے یونس خان نے اپنے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس اجلاس میں پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکالے جانے کا امکان ہے۔
پاکستان کا گرے لسٹ سے نکلنے کا امکان، کیوں؟
ایسا پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ عالمی سطح پر منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کی روک تھام کی نگرانی کرنے والے ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کا اجلاس پیرس میں ہیڈ کوارٹر کے بجائے کسی دوسرے ملک میں ہو رہا ہے۔ اجلاس کے آخری روز سترہ جون کو مختلف ممالک کے گرے لسٹ یا بلیک لسٹ میں رکھنے یا نہ رکھنے کے حوالے سے فیصلے کیے جائیں گے۔
پاکستان کے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے امکانات اس لیے موجود ہیں کیونکہ پاکستان نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے تقریباﹰ تمام اہداف پورے کر دیے ہیں۔
ذرائع کے مطابق حکومت پاکستان نے یورپی ممالک کے ساتھ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے حوالے سے سفارت کاری میں سنجیدگی دکھائی ہے۔ پاکستان کے وفاقی وزیر تجارت سید نوید قمر نے گزشتہ ماہ یورپ کے اہم ترین ممالک کا دورہ کیا اور یورپ کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس میں پاکستان کے اسٹیٹس کے حوالے سے پاکستانی موقف کی حمایت کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ انہوں نے حکومتِ پاکستان کے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ یورپ کے ساتھ بہتر معاشی تعلقات جاری رکھنا چاہتے ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر نے بھی 'بیک ڈور ڈپلومیسی‘ کے ذریعے یورپ کے ساتھ اعلیٰ سطح پر رابطے کیے ہیں۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا اجلاس جرمنی میں ہو رہا ہے اور اس ادارے کا صدارت بھی اس وقت جرمنی کے پاس ہے۔ اس تناظر میں جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک کا پاکستان کا حالیہ دورہ بھی انتہائی اہمیت کا حامل خیال کیا جا رہا ہے۔
قبل ازیں ایف اے ٹی ایف کی جانب سے فروری 2022ء میں پاکستان کے اقدامات کو سراہا گیا تھا اور صرف ایک نکتے پر مزید کام کرنے کا کہا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق فیٹف میں پاکستان کی پوزیشن بہتر ہے اور امکانات ہیں کہ سترہ جون کو پاکستان کے حوالے سے اچھی خبر سننے کو ملے گی۔
اس حوالے سے ذارئع کا مزید کہنا ہے کہ آئندہ اجلاس کے آخری روز پاکستان کے حوالے سے دو آپشنز زیر غور لائے جاسکتے ہیں۔ پہلا آپشن پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال دیا جائے جبکہ دوسرے آپشن میں پاکستان کے اقدامات پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے، اسے گرے لسٹ سے نکالنے کے لیے، فیٹف کا ایک وفد پاکستان بھیجے جائے اور اس کے بعد اکتوبر کے اجلاس میں پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کا با قاعدہ فیصلہ کیا جائے۔
فیٹف کی سفارشات پر پاکستان نے کس حد تک عمل کیا؟
منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی اعانت کے حوالے سے پاکستان نے نہ صرف قوانین بنائے ہیں بلکہ اس پر عمل درآمد بھی کروایا ہے۔ کالعدم تنظیموں کے اثاثے منجمند کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے وابستہ افراد کی سرگرمیاں روکنے کے لیے بھی نمایاں اقدامات کیے گئے ہیں۔ مطلوب افراد کی نہ صرف گرفتاریاں کی گئیں بلکہ ان کو سزائیں بھی دی گئیں۔
پاکستانی پارلیمان میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی اعانت کی روک تھام سے متعلق متعدد قوانین میں ضروری ترامیم کی منظوری بھی دی جا چکی ہے۔ حکومت نے ایف اے ٹی ایف پر قومی رابطہ کمیٹی تشکیل دی ہے۔ کمیٹی کے ممبران میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی اعانت سے متعلق تمام اداروں کے سربراہان اور ریگولیٹرز کے علاوہ وفاقی وزیر خزانہ اور وفاقی سیکرٹری خزانہ، امور خارجہ اور داخلہ شامل ہیں۔ ان میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر، سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین، فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل، فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ممبر کسٹمز، اور فنانشل مانیٹرنگ یونٹ (ایف ایم یو) کے ڈی جی بھی شامل ہیں۔ ساتھ ہی اسٹیک ہولڈرز کے مابین کوآرڈینیشن کے لیے ایف اے ٹی ایف سیکرٹریٹ بھی قائم کیا گیا ہے۔
پاکستانی پارلیمنٹ نہ صرف منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی اعانت کی روک تھام سے متعلق متعدد قوانین میں ضروری ترامیم کی خود بھی منظوری دے چکی ہے بلکہ اسی ضمن میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی سفارشات پر عمل کرتے ہوئے وفاقی سطح پر گیارہ جبکہ صوبائی اسمبلیوں سے تین بل بھی منظور کرائے گئے ہیں۔
علاوہ ازیں کالعدم تنظیموں کے اثاثے منجمد کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے وابستہ افراد کی سرگرمیاں روکنے کے لیے بھی اقدامات کیے گئے ہیں۔
پاکستان کے لیے گرے لسٹ سے نکلنا کتنا ضروری ہے؟
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس گرے لسٹ اور بلیک لسٹ کی فہرست میں ان ممالک کو شامل کرتا ہے، جو منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے مالی معاونت کی روک تھام کے لیے مناسب اقدامات کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کی جانب سے پاکستان کا نام بار بار گرے لسٹ میں شامل رکھنے سے ملکی معیشت کو سرمایہ کاری، برآمدات، کاروبار اور حکومتی اخراجات میں کمی کی مد میں اربوں ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا ہے۔ گرے لسٹ میں رہنے والے ممالک کے ساتھ لین دین کرنے سے بین الاقوامی مالیاتی ادارے اور سرمایہ کار ہچکچاتے ہیں۔ اگر پاکستان گرے لسٹ سے نکلنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، تو ملک کی اقتصادی سمت اور عالمی سطح پر ساکھ دونوں بہتر ہو سکیں گی۔
پاکستان گرے لسٹ میں کیسے آیا؟
منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی امداد روکنے کے لیے ایف اے ٹی ایف کی جانب سے جو چالیس سفارشات مرتب کی گئی ہیں، ان کے نفاذ کو انٹرنیشنل کارپوریشن ریویو گروپ نامی ایک ذیلی تنظیم دیکھتی ہے۔ نومبر 2017ء میں انٹرنیشنل کارپوریشن ریوویو گروپ کا اجلاس ارجنٹینا میں ہوا جس میں پاکستان سے متعلق ایک قرارداد پاس کی گئی۔ اس اجلاس میں پاکستان کی جانب سے لشکر طیبہ، جیش محمد اور جماعت الدعوۃ جیسی تنظیموں کو دی جانے والی مبینہ حمایت کی طرف توجہ دلائی گئی۔ اس کے بعد امریکا اور برطانیہ کی جانب سے پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرنے کی سفارش کی گئی جس کے بعد فرانس اور جرمنی نے بھی اس کی حمایت کی تھی۔ اس طرح فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان کو جون 2018ء میں گرے لسٹ میں شامل کیا تھا۔