1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: گوادر میں ہجوم کے حملے میں ایک فوجی ہلاک

30 جولائی 2024

ریاست کے وزیراعلیٰ نے بلوچستان بھر میں ہڑتال کی اپیل کے درمیان 'بلوچ یکجہتی کمیٹی' کے رہنماؤں کو مذاکرات کی پیشکش کی ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے مطالبات کے لیے چند روز قبل بلوچ قومی اجتماع کے تحت مظاہرہ شروع کیا تھا۔

https://p.dw.com/p/4it6i
پاکستانی فوجی
فوج کے بیان کے مطابق ہجوم نے سکیورٹی اہلکاروں پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں ضلع سبی سے تعلق رکھنے والے 30 سالہ سپاہی شبیر بلوچ ہلاک ہو گئےتصویر: DW/A. Ghani Kakar

پاکستانی فوج نے پیر کے روز بتایا کہ صوبہ بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں پیر کے روز ہجوم کے حملے میں ایک فوجی ہلاک اور ایک افسر سمیت 16 دیگر اہلکار زخمی ہو گئے۔ حکام نے اس سے قبل احتجاجی مظاہرے میں شامل ایک دوکاندار کی بھی ہلاکت کی تصدیق کی تھی۔

بلوچستان: گوادر میں بلوچ قومی اجتماع، قومی شاہراہیں بدستور بند

بلوچ احتجاجی مارچ کے منتظمین نے اپنے ''تقریباً دو درجن کارکنوں کی گرفتاریوں '' کے خلاف بلوچستان بھر میں ہڑتال کی کال دی تھی اور اب انہوں نے اس میں مزید وسعت دینے کا اعلان کیا ہے۔

گوادر میں بلوچ راجی مچی کے انعقاد کا فیصلہ ہے کیا اور کیوں؟

'بلوچی راجی مچی' یا 'بلوچ قومی اجتماع' کا اہتمام کرنے والی بلوچ یکجہتی کمیٹی کا کہنا ہے کہ اگر ان کے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو احتجاج کا دائرہ کار ملک کے دیگر حصوں تک پھیلادیا جائے گا۔

گوادر بندر گاہ غیر فعال کیوں ہے؟

واضح رہے کہ بلوچ قومی اجتماع کی حامی تنظیم 'بلوچ یکجہتی کمیٹی' نے اپنے مشترکہ اعلامیے میں لاپتہ بلوچ سیاسی کارکنوں کی بازیابی، فوجی آپریشن کے خاتمے اور متنازعہ غیر ملکی منصوبے روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔

گوادر: ایک اور حملہ، بلوچستان میں امن قائم کرنا مشکل کیوں؟

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام احتجاجی مظاہرے کے شرکاء اپنے مطالبات کے حق میں گزشتہ چند روز سے بندرگاہی شہر میں مظاہرہ کر رہے ہیں اور شاہراہ بلاک کر رہے ہیں۔

مذاکرات کی پیشکش

مقامی حکومت اس مارچ اور احتجاجی مظاہرے کے خلاف ہے۔ اس نے یہ کہہ کر اس احتجاج پر پابندی لگا دی ہے کہ یہ مظاہرہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے خلاف ایک سازش ہے۔

گوادر میں مظاہرین سڑکوں پر
لوگوں کو مارچ کے لیے آگے بڑھنے کی اجازت نہیں ہے، جنہوں نے سڑکوں پر لگی رکاوٹیں ہٹانے اور احتجاج میں شامل ہونے کی کوششیں کیں اور اسی دوران مظاہرین اور فورسز میں جھڑپیں ہوئیںتصویر: Abdul Ghani Kakar/DW

حکام نے بلوچستان کے کچھ حصوں میں مواصلاتی بلیک آؤٹ نافذ کر دیا ہے اور لوگوں کو مظاہروں میں شامل ہونے سے روکنے کے لیے سڑکیں بند کر دی ہیں۔ 

بلوچستان میں دہشت گردانہ حملے، نو مزدوروں سمیت گیارہ ہلاک

اس بڑھتی کشیدگی کے دوران ہی ریاست کے وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی نے احتجاجی مظاہرے کی مذمت کی اور خبردار کیا کہ کسی کو بھی ریاست کو یرغمال بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ البتہ ریاستی وزیر اعلی نے احتجاج کی قیادت کرنے والی بلوچ رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو ان کی شکایات کو دور کرنے کے لیے بات چیت کے لیے مدعو کیا ہے۔

پاکستان: گوادر میں فوج پر حملے میں دو ہلاک اور متعدد زخمی

انہوں نے صوبائی اسمبلی کے فلور پر بات کرتے ہوئے کہا، ''ریاست کسی کے ہاتھوں یرغمال نہیں بنے گی، لیکن امن کی خاطر ہم ایک بار پھر سے ماہ رنگ بلوچ کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہیں۔ ہم احتجاج کا خوشگوار حل تلاش کرنے کے لیے مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔''

فورسز اور مظاہرین میں جھڑپیں

ایک سرکاری اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ لوگوں کو مارچ کے لیے آگے بڑھنے کی اجازت نہیں ہے، جنہوں نے سڑکوں پر لگی رکاوٹیں ہٹانے اور احتجاج میں شامل ہونے کی کوششیں کیں اور اسی دوران مظاہرین اور فورسز میں جھڑپیں ہوئیں۔

بلوچ عسکریت پسندوں کے حملے کا ہدف گوادر ہی کیوں؟

فوج کے میڈیا ونگ کے مطابق ہجوم نے سکیورٹی اہلکاروں پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں ضلع سبی سے تعلق رکھنے والے 30 سالہ سپاہی شبیر بلوچ ہلاک ہو گئے۔ بیان کے مطابق حملے میں ایک افسر اور 15 دیگر فوجی بھی زخمی ہوئے ہیں۔

گوادر: شدید بارشوں کے سبب ہزاروں افراد بے گھر

آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ''سکیورٹی فورسز نے اشتعال انگیزی کے باوجود بلاجواز شہریوں کی ہلاکتوں سے بچنے کے لیے انتہائی تحمل کا مظاہرہ کیا۔ ہجوم کی پرتشدد کارروائیاں ناقابل قبول ہیں، اور ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔''

آئی ایس پی آر کا یہ بھی کہنا ہے کہ سوشل میڈیا غیر قانونی مارچ کے لیے ہمدردی اور حمایت حاصل کرنے کے لیے جعلی اور بدنیتی پر مبنی پروپیگنڈا پھیلانے والی تصاویر اور ویڈیوز سے بھرا ہوا ہے۔'' اس نے شہریوں پر زور دیا کہ وہ ''پروپیگنڈے کا شکار نہ ہوں۔''

فوج نے لوگوں پر زور دیا کہ عوامی تحفظ اور نظم و نسق کو برقرار رکھنے کے لیے وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کریں۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ ''پاکستان کی سیکورٹی فورسز، قوم کے ساتھ مل کر، بلوچستان میں امن و استحکام کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔''

مظاہرین کی اموات کا دعوی

مظاہرے کے منتظمین نے دعویٰ کیا کہ ایک شخص گوادر میں احتجاجی مظاہرے کے دوران ہلاک ہوا جبکہ دو دیگر افراد دوسرے احتجاجی مقام پر اب تک مارے گئے ہیں۔ بلوچستان حکومت نے گوادر میں 20 سے زائد افراد کی گرفتاری تصدیق کی ہے، تاہم اس نے ہلاکتوں یا زخمیوں کی اطلاع پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

ادھر بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اپنی احتجاجی ریلی کو اب دھرنے میں تبدیل کر دیا ہے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر ''طاقت کے بے تحاشہ استعمال'' کا الزامات عائد کرتے ہوئے گوادر میں ''اپنے متعدد اراکین کی گرفتاری'' کے خلاف صوبے بھر میں احتجاج کی کال دی ہے۔

بی وائی سی کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا کہنا ہے کہ گوادر میں حالات کشیدہ ہیں، جبکہ مواصلاتی نیٹ ورک منقطع ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ گرفتار کیے گئے افراد کے ٹھکانے کا پتہ نہیں چل سکا اور رپورٹس بتاتی ہیں کہ ہلاک ہونے والے مظاہرین کی لاشیں ہسپتالوں میں رکھی جمع کی جا رہی ہیں۔

ادھر وزیر داخلہ ضیاء اللہ لانگو نے گوادر کی پولیس اور انتظامیہ کے اعلیٰ حکام کے ساتھ ایک اہم اجلاس کی صدارت بھی کی۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے موثر انداز میں صورتحال پر قابو پا یا۔ حکام نے تصدیق کی ہے کہ 20 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)

بلوچستان کے ’عوام کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا گیا‘