پاکستانی اسکول کی بچیوں کے غیرمتزلزل عزائم
16 نومبر 2011اسکول کی ہیڈمسٹریس رضیہ بیگم اس صورتحال سے پریشان ہیں اور کہتی ہیں کہ بچیوں کو حساب اور سانئس پڑھانے کی بجائے زیادہ وقت ان کا خوف دور کرنے میں صرف ہو جاتا ہے۔ تاہم انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ والدین بچیوں کواسکول بھیجنے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔
پاکستانی طالبان نے حکومت کے خلاف سن 2007 میں کارروائیوں کا آغاز کیا تھا۔ طالبان لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اب تک انہوں نے بچیوں کے سینکڑوں اسکولز تباہ کر دیے ہیں۔ ان تمام کارروائیوں کے باوجود طالبان پاکستانی عوام کی اکثریت پر اپنے اس پرتشدد فلسفےکو لاگوکرنے میں ناکام رہے ہیں اور لوگوں کو ڈرا دھمکا کر عسکریت پسندی کی حمایت کروانے میں انہیں معمولی کامیابی ملی ہے۔ طالبان کا نظریہ یہ ہے کہ خواتین کو گھروں کے اندر رہنا چاہیے اوران کا بنیادی کام کھانا پکانا، گھر کی دیکھ بھال اور اپنے خاوند کی خدمت ہے۔ خواتین کے علاوہ مردوں کے متعلق ان کا خیال ہے کہ ان کی داڑھی بڑھی ہونی چاہیے۔ طالبان یہ چاہتے ہیں کہ حکومت تمام مغربی دنیا سے لا تعلقی اختیار کرتے ہوئے اسلامی نظام کے نفاز کا اعلان کرے۔
چار سے پندرہ سال کی بچیاں بلاشبہ اپنے اسکول کی تباہی پر خوف میں مبتلا ہیں اور اب وہ کلاس روم کی بجائے اسکول کے صحن میں گھاس پر بیٹھ کر پڑھنے پر مجبور ہیں تاہم وہ پرعزم ہیں اور مستقبل میں تعلیمی سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے ڈاکٹر، انجینیئر اور پائلٹ بننا چاہتی ہیں۔ دس سالہ حسینہ قریشی کالج لیکچرار بننا چاہتی ہے اور کہتی ہے کہ ہم طالبان سے زیادہ بہادر ہیں، وہ ظالم لوگ ہیں اور اچھے مسلمان نہیں ہیں۔ 8 سالہ ثناء خان کئی کلومیٹر پیدل چل کر اسکول میں تعلیم حاصل کرنے آتی ہے اور مستقبل میں وہ ڈاکٹر بننا چاہتی ہے۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملک سے باہر جا کر دنیا دیکھنا چاہتی ہے۔ سارہ احمد کی عمر نو سال ہے اور اسے کسی حوصلہ افزائی کی ضرورت نہیں کیونکہ اس کے عزائم کافی بلند ہیں۔ یہ پیاری سی معصوم بچی مستقبل میں فائیٹر پائلٹ بننا چاہتی ہے۔
اسکول کے استاد محمد عارف ملک کی اقتصادی ترقی کے لیے خواتین کی تعلیم کو لازمی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ خواتین ملکی آبادی کا نصف ہیں اور ان کی زندگی کے تمام شعبوں میں شرکت کے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا۔
رپورٹ: شاہد افراز خان
ادارت: حماد کیانی