پاکستانی خواتین اپنے حقوق کی منتظر
7 مارچ 2019قدامت پسند معاشروں میں ایک عورت کا کام سجنا، سنورنا، بچے پیدا کرنا اور تمام عمر گھر کے کام کاج میں مصروف رہنا سمجھا جاتا ہے۔ یہی نہیں زندگی کے سنجیدہ، سماجی، معاشی اور معاشرتی معاملات سے بھی اسے دور رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں گھریلو حالات، غربت، تنگ دستی، محرومیوں اور مہنگائی کے ہاتھوں مجبور عورت، جب روزگار کی تلاش میں باہر نکلتی ہے تو وہاں بھی اسے کئی پیچیدہ مسائل کا سامنا رہتا ہے۔
اول تو ملازمت کے حصول کے لیے بھی سو طرح کے پاپڑ بلینے پڑتے ہیں اور فرض کیجیے کہ ملازمت مل بھی جائے تو بھی سماج میں موجود مردوں کی حاکمیت کے باعث اسے ہر وقت جنسی تفریق کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خواتین کے گھر سے نکل کر نوکری کرنے کی مخالفت کی جاتی ہے، جبکہ اگر یہی خواتین روز مرہ کے گھریلو کام کاج میں مصروف رہیں تو خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جو عورت گھر کے کام خوش اسلوبی سے کر رہی ہو اور بیک وقت خانہ داری سے لےکر بچوں کی تعلیم تک میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہی ہو، وہ بھلا ملازمت کر کے مثبت تبدیلی کیوں نہیں لا سکتی؟
پاکستان میں زیادہ تر غریب اور متوسط گھرانوں کے لیے حالات زندگی ہر گزرتے دن کے ساتھ مشکل ہوتے جا رہے ہیں، جس کی ایک بڑی وجہ گھریلو ماحول کا مجموعی طور پر تناؤ ہے جبکہ سماجی رشتے بھی تیزی سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ طلاقوں اور خودکشیوں کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
دوسری جانب خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی اور اجتماعی زیادتی جیسے واقعات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور پہلےکم نظر آنے والے یہ واقعات اب معمول کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ اس درندگی سے معصوم بچیاں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ ایکسپریس ٹربیون کی ایک رپورٹ کی مطابق سن 2017 میں بچوں سے زیادتی کے نو کیسز فی دن ریکارڈ ہوئے جبکہ موجودہ صورت حال میں یہ تعداد بڑھ کر 12 کیسز فی دن تک پہنچی چکی ہے۔
ہمارے معاشرے میں ایک عورت پر اگر تشدد کیا جاتا ہے تو ان میں سے اکثر خواتین صرف ظلم سہتی ہیں یا پھر آخری حد تک پر جاتے ہوئے خودکشی کر لیتی ہیں، کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ یہ معاشرہ مردوں کا ہے، اس کی کہیں شنوائی نہیں ہو گی۔ آج بھی ایک مظلوم عورت انصاف کے حصول کے لیے تھانے میں اکیلی داخل ہونے کا تصور بھی نہیں کر سکتی، لہٰذا عورتوں پر ہونے والے ظلم و جبر کے اکثر واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ اگر پرچہ درج ہو بھی جائے تو جس انداز میں تحقیقات ہوتی ہیں، وہ جسمانی تشدد سے کہیں زیادہ اذیت ناک ہے۔ ایکسپریس ٹربیون کی ہی ایک رپورٹ کی مطابق پاکستان کی 93 فیصد خواتین جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہیں جبکہ صوبہ سندھ اور پنجاب میں صرف 10 فیصد کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔
اکیسویں صدی میں بھی پاکستان میں کاروکاری، وٹہ سٹہ اور ونی جیسی جاہلانہ رسومات عروج پر ہیں۔ راہ چلتے عورتوں پر آوازیں کسنا، انہیں برے ناموں سے پکارنا، مذاق اڑانا، سوشل میڈیا پر ان کی تضحیک کرنا، انہیں بلیک میل کرنا اور غیر مہذب الفاظ کا استعمال کرنا روز مرہ کا معمول بن چکا ہے۔ یعنی آج بھی دور جہالت کے پیروکار موجود ہیں، کسی کی بہن کے ساتھ اگر جنسی زیادتی ہو جائے تو بھائی اسے غیرت کے نام پر قتل کر دیتا ہے، بجائے یہ کہ اپنی بہن کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر مجرم کو قانون کے دائرے میں لائے۔
میرے خیال میں خواتین کے عالمی دن کے موقع پر صرف مذمتی الفاظ، ریلیوں اور سیمیناروں سے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ معاشرے میں خواتین کے مقام کی اہمیت کو کھلے دل اور کھلے ذہن سے تسلیم کرنا ہو گا۔ ان ہاتھوں کو روکنا ہوگا، جو خواتین پر تشدد کرتے ہیں، ان جاہلانہ رسم و رواج کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہو گا، جن سے ناصرف نظام عدل پر انگلی اٹھتی ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ملک کی ساکھ خراب ہو رہی ہے۔ حکومت کو سنجیدگی سے اس حوالے سے مزید قانونی سازی کرنا ہو گی اور خواتین کے تحفظ کو ہر حال میں یقینی بنانا ہو گا۔