کرتار پور راہداری: ’کسی بڑے بریک تھرو کا کوئی امکان نہیں‘
28 نومبر 2018پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے آج بدھ 28 نومبر کی شام پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع نارووال کے علاقے کرتارپور میں ایک راہداری کا سنگ بنیاد رکھا ہے جو کرتار پور میں قائم گردوارا دربار صاحب کو بھارت کے شہر گورداس پور میں قائم ڈیرہ بابا نانک سے ملائے گی۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ بھارت کے دوروں کے دوران بعض لوگ انہیں کہا کرتے تھے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت ایک طرف ہے لیکن فوج دوستی نہیں ہونے دے گی لیکن آج وہ کہتے ہیں کہ بطور وزیرِاعظم، ان جماعت اور پورے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اور مسلح افواج، اور ملک کے سارے ادارے پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے ایک پیج پر کھڑے ہیں، ’’ہم بھارت کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ ہمارا مسئلہ ایک ہے اور وہ کشمیر کا ہے، انسان چاند پر پہنچ چکا ہے تو کیا ہم اپنا ایک مسئلہ حل نہیں کرسکتے، اس کے لیے دونوں طرف ارادے والی قیادت چاہیے۔‘‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کےتعلقات کو بہتر بنا کر ہی اس خطے سے غربت کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت اگر دوستی کا ایک قدم بڑھائے گا تو پاکستان دو قدم آگے بڑھے گا۔ عمران خان نے کہا کہ جوہری طاقت رکھنے والے ممالک کے درمیان جنگ نہیں ہو سکتی اور جب جنگ نہیں کرنی تو دوسرا راستہ دوستی کے علاوہ کیا ہے؟
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے بقول گزشتہ 70 سالوں میں پاکستان اور ہندوستان دونوں جانب سے غلطیاں ہوئیں، لیکن ماضی سیکھنے کے لیے ہوتا ہے رہنے کے لیے نہیں: ’’ہمیں آگے کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے۔‘‘ عمران خان نے جرمنی اور فرانس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ان دونوں ممالک نے ایک دوسرے سے جنگیں لڑی ہیں لیکن اب یہ اچھے ہمسائیوں کی طرح ایک ساتھ ہیں اور اب یہ ایک دوسرے سے جنگ لڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔
دوسری طرف پاکستان میں کرتار پور راہداری کے افتتاح کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے کہا کہ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اس اقدام سے دونوں ممالک میں مذاکرات کا آغاز ہوجائے گا۔
پاکستان کے سابق وزیر خارجہ اور پاک بھارت تعلقات کے ماہر میاں خورشید محمود قصوری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ بات تو درست ہے کہ اس راہداری کے افتتاح سے فوری طور پر کسی بڑے بریک تھرو کا کوئی امکان نہیں ہے لیکن ان کے بقول کرتار پور راہداری انسانی ہمدردی کے طور پر ایک بڑا قدم ہے اور اسے پاک بھارت تعلقات میں بھی اعتماد کی بحال کا ایک اہم قدم قرار دیا جا سکتا ہے۔
خورشید قصوری کے بقول، ’’سکھ برادری اپنی محدود عددی قوت کے باوجود ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے۔ برطانیہ، امریکا اور کینیڈا سمیت کئی اہم ملکوں میں سکھ اہم عہدوں پر فائز ہیں۔ کینیڈا کے ڈیفنس منسٹر سکھ ہیں اور برطانیہ میں سکھ ارکان پارلیمنٹ ہیں۔ اس لیے اس اقدام سے پاکستان کے بارے میں عالمی سطح پر تاثر میں بہتری آئے گی۔‘‘
خورشید قصوری کے مطابق بھارت کا پاکستان میں سارک اجلاس میں شرکت نہ کرنے اور بھارتی وزیر خارجہ کا پاکستانی وزیر خارجہ سے ملاقات نہ کرنے کا فیصلہ بلا جواز اور غلط ہے: ’’میرے خیال میں پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں بہتری بھارت میں ہونے والی انتخابات کے بعد ہی ہو سکتی ہے کیونکہ بھارت میں بعض سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے امن کی آوازوں کو کمزور کر کے اور نفرتوں کو پروان چڑھا کر سیاسی فائدے حاصل کرنے کی جو روش اپنائی گئی تھی اب اس کے اثرات سامنے آ رہے ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود پاک بھارت تعلقات ضرور بہتر ہوں گے۔‘‘
سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کرتار پور راہداری کے افتتاح کے بعد پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے حوالے سے زیادہ خوش گمانیوں کی ضرورت نہیں: ’’پاکستان کا یہ اقدام اچھا ہے اور یہ ایک خیر سگالی کا اقدام ہے جو مذاکرات کے آغاز کی شرط کے ساتھ وابستہ نہیں کیا گیا۔ ہمیں نہ تو نا امید ہونا چاہیے اور نا ہی بغلیں بجانی چاہیں، ہم نے اپنا کام کر دیا اگر بھارت اسے نقطہ آغاز بنا کر پاک بھارت تعلقات کی بہتری کی طرف آ جائے تو اس سے خطے کے عوام کا بھلا ہوگا لیکن مجھے اس کی زیادہ امید نہیں ہے۔‘‘
سینیئر تجزیہ کار راشد رحمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کرتار پور راہداری کا افتتاح ایک اچھی پیش رفت ہے جو پاکستان کی سکھوں کو سہولتیں فراہم کرنے کی پرانی پالیسی کا حصہ ہے: ’’اس راہداری کے حوالے سے مشرف دور سے ہی کام جاری تھا۔ لیکن اس سے کسی بڑے بریک تھرو کی توقع اس لیے نہیں ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیاں اس وقت تعلقات جمود کا شکار ہیں، نہ بات چیت ہو رہی ہے اور نہ ہی ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔ اچھی بات صرف یہ ہے کہ پاکستان نے فراخ دلی کا مظاہرہ کیا ہے اور بھارت نے بھی اس تجویز کو قبول کیا ہے۔ سکھ خوش ہیں کہ پہلے دوربینوں سے گورو نانک کی سمادھی کو دیکھتے تھے اب آنکھوں سے قریب جا کر دیکھیں گے اور پوجا بھی کر سکیں گے۔‘‘
ان کے نزدیک عمران حکومت کی طرف سے دوستی کی دعوت کے باوجود اگر مثبت جواب نہ بھی ملے تو پھر بھی کوششیں جاری رہنی چاہییں۔