کرکٹ کھلاڑیوں پر ’غداری‘ کا الزام، سماعت ملتوی
7 ستمبر 2010لاہور ہائیکورٹ کے جج خواجہ شریف نے سماعت اِس لئے ملتوی کر دی کیونکہ عدالت میں نہ تو پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین اعجاز بٹ موجود تھے اور نہ ہی عدالت میں طلب کئے گئے سات کھلاڑیوں میں سے کوئی ایک کیونکہ وہ سبھی انگلینڈ میں ہیں۔ اس پٹیشن میں کھیلوں کے وزیر اعجاز جاکھرانی کو بھی موردِ الزام ٹھہرایا گیا ہے۔
گزشتہ مہینے کے اواخر میں سپاٹ فکسنگ اسکینڈل کی ابتدائی تفصیلات منظرِ عام پر آنے کے بعد مقامی وکیل اشتیاق احمد نے لاہور ہائیکورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی تھی، جس میں عدالت سے درخواست کی گئی تھی کہ اِن کھلاڑیوں پر تاحیات پابندی لگائی جائے اور اُن کے خلاف غداری کے الزام میں مقدمات چلائے جائیں۔ درخواست گزار نے یہ موقف بھی اختیار کیا کہ سپاٹ فکسنگ میں ملوث کھلاڑیوں اور آفیشلز کے اثاثے منجمد کر دئے جانے چاہئیں کیونکہ اُن کی سرگرمیوں کی وجہ سے کھیل کی بدنامی ہوئی ہے اور ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔
پی سی بی کے قانونی مشیر طالب رضوی نے عدالت میں یہ موقف اختیار کیا کہ یہ پٹیشن لائقِ سماعت ہی نہیں ہے کیونکہ ابھی متعلقہ کھلاڑیوں کے خلاف کوئی بھی الزامات ثابت نہیں ہوئے ہیں۔ رضوی نے خبر رساں ادارے روئٹرز کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے کہا: ’’ابھی ہمارے کھلاڑیوں کے خلاف محض سپاٹ فکسنگ اور شرطیں لگانے کے الزامات ہیں۔ ابھی کچھ بھی ثابت نہیں ہوا ہے، اِس لئے اس درخواست کی سماعت ہی نہیں ہونی چاہئے۔‘‘
رضوی نے کہا کہ وزارتِ کھیل کی نمائندگی کرتے ہوئے ڈپٹی اٹارنی جنرل عدالت میں حاضر ہوئے اور اُنہوں نے عدالت کو بتایا کہ پی سی بی ایک آزاد ادارہ ہے لیکن اگر کھلاڑی شرطیں لگانے یا فکسنگ کے الزامات میں قصور وار قرار پائے تو حکومت اُن کے خلاف سخت کارروائی کرے گی۔
واضح رہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل ICC پہلے ہی تین مشتبہ پاکستانی کھلاڑیوں ٹیسٹ کپتان سلمان بٹ اور فاسٹ بولرز محمد آصف اور محمد عامر کو عارضی طور پر معطل کر چکی ہے۔
عام طور پر پاکستان میں عدالتی کارروائیاں بہت طول پکڑ جاتی ہیں اور کوئی فیصلہ ہونے میں کئی برس لگ جاتے ہیں۔ ایک قانونی ماہر نے بتایا کہ اگر ملزمان مسلسل تین مرتبہ عدالت میں پیش نہ ہوں تو اُن کی غیر حاضری میں ہی فیصلہ سنایا جا سکتا ہے۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: مقبول ملک