1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گورنر پنجاب کے قتل کا ملزم ، عدالت میں ابتدائی سماعت

24 جنوری 2011

ممتاز قادری نے ایک مرتبہ پھر کہا ہے کہ گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو قتل کرنا اس کا ذاتی عمل تھا، جس میں کسی مذہبی یا سیاسی جماعت کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔

https://p.dw.com/p/101i5
ممتاز قادری، گورنر پنجاب کے قتل کا ملزمتصویر: AP

گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل کے ملزم ممتاز قادری کو آج پیر کو ایک عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں اس نے اعتراف جرم کیا کہ چار جنوری کو اس نے سلمان تاثیر کو اس لیے ہلاک کیا تھا کہ انہوں نے توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کی بات کی تھی۔

آج پیر کے روز انتہائی سخت سکیورٹی میں ممتاز قادری کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کے اندر قائم ایک عدالت میں ابتدائی سماعت کے لیے پیش کیا گیا تو ملزم کے متعدد حامی جیل کے باہر اس کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔ اس موقع پر میڈیا کوریج کی اجازت نہیں تھی۔

مقدمے کی کارروائی کے بعد قادری کے وکیل شجاع الرحمان نے خبر رساں ادارے AFP کو بتایا کہ مقدمے کی آئندہ سماعت یکم فروری کو ہو گی اور اس وقت تک تحقیقاتی رپورٹ بھی عدالت کو موصول ہو چکی ہو گی۔

شجاع الرحمان نے کہا، ’ہم نے جیل میں ممتاز قادری سے ملاقات کی ہے۔ اسے ایک الگ کمرے میں تنہا رکھا گیا ہے۔ جو تشدد کی ایک قسم ہے۔ ہم نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ قادری کو اس کے گھر والوں سے ملنے کی اجازت دی جائے اور اسے جیل میں قانون کے مطابق سہولتیں مہیا کی جائیں۔‘ اس موقع پر دفتر استغاثہ کی طرف سے کسی بیان کے لیے کوئی بھی موجود نہیں تھا۔

NO FLASH Pakistan Gouverneur Salman Taseer ermordet
گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو انہی کے ایک سکیورٹی گارڈ ممتاز قادری نے چار جنوری کو ہلاک کر دیا تھاتصویر: DW

اطلاعات کے مطابق ممتاز قادری نے اعتراف کیا ہے کہ گورنر پنجاب کا قتل اس کا ذاتی فعل تھا، جس میں کسی مذہبی یا سیاسی جماعت کا کوئی کردار نہیں ہے۔ تاہم اس نے کہا کہ وہ دو مذہبی رہنماؤں کی تقریروں سے بہت زیادہ متاثر تھا۔ اس نے بتایا کہ مفتی قاری حنیف قریشی اور امتیاز شاہ کی تقاریر وہ بہت شوق سے سنتا تھا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مفتی قاری حنیف قریشی بھی پیر کے روز دیگر مظاہرین کے ہمراہ اڈیالہ جیل کے باہر موجود تھے، جو ممتاز قادری کے حق میں اللہ اکبر کے نعرے بلند کر رہے تھے۔ مفتی قریشی نے اس موقع پرخبر رساں اداروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس قتل میں وہ کسی طرح بھی ملوث نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’قادری ان ہزاروں افراد میں شامل ہو سکتا ہے، جو میری امامت میں نماز ادا کرتے ہیں۔ میں یہاں اس لیے آیا ہوں کہ میں اسے آزاد دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘

پنجاب کے مقتول گورنرسلمان تاثیر پاکستان میں توہین رسالت سے متعلق اس موجودہ قانون میں ترمیم کے خواہاں تھے، جو انسانی حقوق کے کئی اداروں کے مطابق بڑی آسانی سے غلط استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ایسے اداروں کا کہنا ہے کہ لوگ اپنی ذاتی دشمنیوں کی وجہ سے بھی مخالفین کے خلاف اس قانون کو غلط استعمال کر سکتے ہیں۔ تاہم پاکستانی حکومت نے تاثیر کے قتل اور اس کے بعد اس قانون میں ترمیم کے موضوع پر شروع ہونے والی شدید بحث کے تناظر میں اب یہ واضح اعلان بھی کر دیا ہے کہ اس متنازعہ قانون میں کوئی ترمیم نہیں کی جائے گی۔

رپورٹ: عاطف بلوچ

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں