ہلیری کلنٹن کی ’ہارڈ چوائسز‘، دلچسپ انکشافات
10 جون 2014نیوز ایجنسی اے ایف پی نے واشنگٹن سے اپنے ایک جائزے میں لکھا ہے کہ ہلیری کلنٹن نے اپنی اس نئی کتاب میں کئی اہم عالمی رہنماؤں کے بارے میں رائے زنی کی ہے۔ کلنٹن نے مثلاً یہ کہا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن سوویت مملکت کی بحالی کے نکتے پر ’جمے ہوئے‘ لگتے ہیں، چین کے ہُو جن تاؤ ’فاصلے پر رہنے والی‘ شخصیت ہیں جبکہ ایران کے محمود احمدی نژاد ایک ’جھگڑالو مور‘ ہیں۔
چار سال تک امریکی وزیر خارجہ کی ذمے داریاں نبھاتے ہوئے اُنہوں نے 112 ممالک کے دورے کیے۔ اس دوران اُنہوں نے دنیا کو درپیش مشکل مسائل کے حل کے لیے عالمی رہنماؤں کے ساتھ کس طرح سے معاملات طے کیے اور کیسے اِن رہنماؤں کے ساتھ اُن کے ذاتی سطح کے تعلقات مذاکرات کی بنیادی فضا پر اثر انداز ہوئے، اپنی کتاب میں کلنٹن نے اِن باتوں کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں: ’’بہت سے لوگ سوچ بھی نہیں سکتے ہوں گے کہ بین الاقوامی معاملات میں ذاتی تعلقات کس حد تک منفی یا مثبت طور پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔‘‘
اس کتاب میں ہلیری کلنٹن لکھتی ہیں کہ اُن کی سب سے زیادہ مشکل اور پیچیدہ ملاقاتیں وہ تھیں، جو اُنہوں نے پوٹن کے ساتھ کیں۔ اوباما کے دورِ صدارت کے ابتدائی دنوں میں ہونے والی ان ملاقاتوں کا مقصد امریکا اور روس کے تعلقات کو معمول پر لانا تھا۔ کلنٹن کا کہنا ہے کہ پوٹن ایک مطلق العنان رہنما ہیں، جو ہمیشہ ’زیادہ طاقت، زیادہ علاقہ اور زیادہ اثر و رسوخ‘ چاہتے ہیں: ’’وہ ہر وقت آپ کو آزمانے میں لگے رہیں گے اور ہمیشہ آخری حدوں تک جانے کی کوشش کریں گے۔‘‘
اپنی 635 صفحات پر مشتمل کتاب میں کلنٹن لکھتی ہیں کہ پوٹن کے برعکس چینی صدر ہُو جن تاؤ کا بات چیت کا انداز براہِ راست لڑائی پر آمادہ شخص کا سا نہیں ہوتا تھا بلکہ وہ ’شائستہ‘ انداز میں وہ باتیں کرتے، جو ’پہلے سے طَے شُدہ‘ ہوتیں۔ کلنٹن کے خیال میں ہُو میں ’اپنی بات منوانے کی‘ وہ صلاحیت نہیں ہے، جو دَینگ سیاؤ پِنگ جیسے اُن کے پیشروؤں میں تھی۔
کلنٹن کی ان یادداشتوں میں ایرانی صدر احمدی نژاد کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ کلنٹن لکھتی ہیں کہ احمدی نژاد ’ہولوکاسٹ سے انکار کرنے والے اور اشتعال دلانے والے ایک ایسے شخص تھے، جو ہر موقع پر مغربی دنیا کی توہین کیا کرتے تھے‘۔ کلنٹن کے مطابق احمدی نژاد خود کو ’عالمی اسٹیج پر اِترا کر چلتے ہوئے ایک جھگڑالو مور‘ کے سے انداز میں پیش کرتے تھے اور واشنگٹن کے ساتھ اپنے ملک کے خراب تعلقات کو بہتر بنانے پر ہرگز آمادہ نہیں تھے: ’’صدر احمدی نژاد کی دوسری مدتِ صدارت انتہائی ناخوشگوار تھی اور ملک کے اندر بھی اُن کی ساکھ تباہ ہو گئی تھی۔‘‘
کلنٹن لکھتی ہیں کہ اسرائیلی رہنما بینجمن نیتن یاہو کے ساتھ برسوں کی جان پہچان کے باعث تناؤ کے شکار اُن مذاکرات کو جزوی طور پر آسان بنانے میں مدد ملی، جن میں مشرقِ وُسطیٰ کا امن عمل یا پھر ایران کا جوہری پروگرام زیرِ بحث آیا کرتا تھا۔ کلنٹن کے مطابق نیتن یاہو سمجھتے تھے کہ ’فلسطینیوں کے مقابلے میں ایران کا ایٹمی پروگرام اسرائیل کی طویل المدتی سلامتی کے لیے کہیں بڑا خطرہ ہے‘۔ وہ لکھتی ہیں: ’’مَیں نے دیکھا کہ جب بھی بی بی (نیتن یاہو) کو لگتا تھا کہ انہیں دیوار کے ساتھ لگایا جا رہا ہے، وہ لڑنے کے لیے تیار ہو جاتے تھے لیکن اگر آپ ایک دوست کے طور پر اُن کے ساتھ رابطہ کرتے تھے تو پھر اُن سے کوئی بات منوانے کا امکان زیادہ ہوتا تھا۔‘‘
اپنی اس کتاب میں ہلیری کلنٹن نے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی بے حد تعریف کی ہے اور اُنہیں ’یورپ کی سب سے طاقتور رہنما شخصیت‘ قرار دیا ہے۔ میرکل کے بارے میں وہ لکھتی ہیں: ’’وہ یورپ کو اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے تھیں۔‘‘ وہ پہلی مرتبہ میرکل سے 1994ء میں ملی تھیں، جب وہ اپنے شوہر اور اُس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن کے ہمراہ برلن گئی تھیں۔
کلنٹن لکھتی ہیں کہ میرکل بہت کم بولتی تھیں اور محتاط رہ کر گفتگو کرتی تھیں جبکہ فرانس کے صدر نکولا سارکوزی اُن کے بالکل الٹ تھے: ’’وہ ہمہ وقت گپ شپ میں لگے رہتے تھے اور دیگر عالمی رہنماؤں کو پاگل یا غیر مستحکم قرار دیتے رہتے تھے۔‘‘ تاہم کلنٹن لکھتی ہیں کہ اپنی تمام تر پُر جوش طبیعت کے باوجود وہ (سارکوزی) ایک بھلے مانس شخص تھے۔