یوکرائن کو ہتھیار دیے جائیں، امریکی سینیٹرز
1 ستمبر 2014خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سینیٹر رابرٹ مینینڈیز نے یہ بات اتوار کو امریکی نشریاتی ادارے سی این این سے بات چیت میں کہی۔ انہوں نے کہا: ’’ہمیں یوکرائن کو ایسے دفاعی ہتھیار فراہم کرنے چاہییں جو پوٹن (روس کے صدر) پر مزید جارحیت کی قیمت مسلط کریں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا: ’’اب یہ چند باغی علیحدگی پسندوں کا سوال نہیں رہا، یہ روس کا براہ راست حملہ ہے۔ ہمیں اس کو اسی طرح تسلیم کرنا چاہیے۔‘‘
سینیٹر مینینڈیز کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے یوکرائن کے مشرقی علاقوں کو ریاستی حیثیت دینے کے موضوع پر بات چیت کرنے پر زور دیا ہے۔
کییف حکومت خبردار کر چکی ہے کہ وہ ماسکو حکومت کے ساتھ مکمل جنگ کے دہانے پر ہے۔ یورپ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ایسی صورتِ حال براعظم کو مزید وسیع تر تنازعے کی جانب دھکیل دے گی۔
یوکرائن کی حکومت نے بالخصوص یہ کہا ہے کہ گزشتہ دِنوں میں مشرقی علاقوں کے باغیوں کے ساتھ روس کے فوجی بھی جا ملے ہیں جو اب اس خطے کے بڑے علاقوں میں فورسز تعینات کر رہے ہیں۔
اس بارے میں ڈیموکریٹ سینیٹر مینینڈیز کا کہنا ہے: ’’میرے خیال میں یورپی یونین اور نیٹو کے ساتھ امریکا کو اس بات پر غور کرنا ہو گا کہ یہ صورتِ حال ڈرامائی حد تک مختلف ہے اور ہمیں یوکرائن کے عوام کو اپنے دفاع کا موقع دینا ہو گا۔‘‘
ری پبلکن سینیٹر جان مکین نے بھی سینیٹر مینینڈیز کے اس مؤقف کی حمایت کی ہے۔ سینیٹر جان مکین روس پر تنقید میں پیش پیش رہے ہیں ۔ انہوں نے سی بی ایس کے پروگرام ’فیس دی نیشن‘ میں باتیں کرتے ہوئے کہا ہے کہ یوکرائن کو ان کی ضرورت کے ہتھیار دیے جانے چاہییں۔
مکین بھی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے رکن ہیں۔ انہوں نے کہا: ’’خدا کے لیے، کیا ہم ان لوگوں کی مدد نہیں کر سکتے کہ وہ اپنا دفاع کر سکیں؟ یہ مداخلت نہیں ہے، یہ حملہ ہے۔‘‘
قبل ازیں یورپی یونین نے روس کو یوکرائن سے پیچھے ہٹنے کے لیے ایک ہفتے کا وقت دیتے ہوئے خبر دار کیا تھا کہ ایسا نہ کرنے پر اس کے خلاف پابندیاں لگا دی جائیں گی۔
یورپی رہنماؤں نے ہفتے کی شب برسلز میں ایک خصوصی اجلاس کے بعد روس کے لیے یہ الٹی میٹم جاری کیا تھا۔ یورپی یونین کے صدر ہیرمان فان رومپوئے کا کہنا تھا کہ اس اجلاس کے بعد اٹھائیس رکن ریاستوں کےر ہنماؤں نے ماسکو حکومت کے پیچھے نہ ہٹنے کی صورت میں ’مزید اہم اقدامات‘ کرنے پر اتفاق کیا ہے۔