اسرائیل و فلسطینیوں کے درمیان مذاکرات اور بھی اہم ہو گئے، اوباما
18 مئی 2011مشرقِ وسطیٰ کے امن کے لیے باراک اوباما کی کوششوں کے حوالے سے اسرائیل، واشنگٹن اور فلسطینی علاقوں میں مایوسی کی فضا پائی جا رہی ہے۔ اس کے باوجود اردن کے شاہ عبداللہ دوئم سے واشنگٹن ملاقات کے موقع پر منگل کو باراک اوباما نے کہا کہ منجمد مذاکرات کا عمل بحال ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا، ’متعدد تبدیلیوں کے باوجود، یا پھر خطے میں ہونے والی بہت سی تبدیلیوں کی وجہ سے، یہ پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہو گیا ہے کہ اسرائیلی اور فلسطینی مذاکرات کی میز پر لوٹنے کا راستہ تلاش کریں۔‘
فریقین کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ آباد کاری کے اسرائیلی منصوبوں کے باعث ٹوٹ گیا تھا۔ اوباما نے مزید کہا کہ فریقین کو بات چیت کا ایسا عمل شروع کرنا چاہیے، جس کے نتیجے میں دو ریاستیں تشکیل پا سکیں، جہاں دونوں جانب کے لوگ امن و سلامتی سے رہ سکیں۔‘
شاہ عبداللہ دوئم نے مشرقِ وسطیٰ کے اہم مسئلے کے لیے اوباما کی حمایت پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ باراک اوباما کی اردن کے شاہ سے ملاقات ایسے وقت ہوئی ہے، جب اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو بھی امریکہ کا دورہ کرنے والے ہیں جبکہ اوباما نے مشرق وسطیٰ کے موضوع پر خطاب بھی کیا۔
جنوری 2009ء میں صدارت کا منصب سنبھالتے ہی باراک اوباما نے یہ واضح کیا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں امن اور فلسطینی ریاست کو یقینی بنانا ان کی اوّلین سفارتی ترجیحات میں شامل ہو گا۔
تاہم دو برس سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود مشرق وسطیٰ کی صورت حال پہلے سے کہیں خراب دکھائی دیتی ہے۔ واشنگٹن انتظامیہ نے اس عرصے میں فریقین کے درمیان براہ راست مذاکرات کو یقینی بنایا تھا، تاہم وہ سلسلہ بھی زیادہ دیر نہ چل سکا اور آبادکاری کے تنازعے پر رک گیا۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنے کا بھی کہنا ہے کہ امن مذاکرات کے لیے غیرموزوں صورت حال کے باوجود، عرب ممالک میں بحرانوں کے نتیجے میں علاقائی تبدیلی کے لیے ایک موقع پیدا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا، ’ہمیں اس عمل کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ حالات مشکل ہیں اور جادوئی طریقے سے نہیں بدلیں گے۔ لہٰذا فریقین کو مل بیٹھنا ہو گا۔ بات چیت کرنا ہوگی۔‘
رپورٹ: ندیم گِل/خبر رساں ادارے
ادارت: شامل شمس