بحری قزاقی کے مسئلے پر عالمی کانفرنس
18 اپریل 2011دبئی ميں آج بحری جہاز رانی کی صنعت کے ممتاز نمائندے، کئی ملکوں کے وزرائے خارجہ،اور غير جانبدار ماہرين بحری قزاقی کے مسئلے پر غور کرنے کے لئے اکٹھے ہورہے ہيں۔ بحری قزاقی کے مقابلے کے ليے کيے جانے والے تمام بين الاقوامی اقدامات کے باوجود ان واقعات ميں ريکارڈ حد تک اضافہ ہوگيا ہے۔
دبئی ميں ہونے والی اس دو روزہ کانفرنس ميں بحری قزاقی کو ايک عالمی چيلنج قرار ديتے ہوئے اس کے مقابلے کے مشترکہ اقدامات پر غور کيا جائے گا اور مسئلے کے حل کے علاقائی امکانات پر بات چيت کی جائے گی۔ کانفرنس کے ايک اعلان ميں کہا گيا ہے کہ قزاقی کے وسيع خطرات اور اس کے خاتمے کے ليے تعاون پر غور ہوگا۔ اعلان ميں يہ بھی کہا گيا ہے:''کانفرنس ميں، بحری قزاقی کی وجہ سے قيد ہونے والے افراد، اُن کے گھرانوں اور برادريوں کے علاوہ اس کےعالمی امن اور سلامتی پر پڑنے والے تباہ کن اثرات پر بحث کی جائے گی۔'' اس کانفرنس ميں 50 سے زائد ممالک کے نمائندے شرکت کر رہے ہيں۔
يہ کانفرنس جہازرانی کی نگرانی کے بين الاقوامی دفتر IMB کے اس بيان کے کچھ ہی دن بعد منعقد ہو رہی ہے جس ميں کہا گيا تھا کہ سال رواں کے ابتدائی تين مہينوں ميں صومالی بحری قزاقوں کے حملوں کا ايک نيا ريکارڈ قائم ہوا ہے اور وہ 142 تک پہنچ گئے ہيں۔ سن 1991 سے دنيا بھر ميں بحری قزاقی کے واقعات پر نظر رکھنے والے IMB کے متعلقہ شعبے کے ڈائريکٹر پوٹينگال مکوندان نے کہا : '' پچھلے تين مہينوں کے دوران ہم نے سمندر ميں مسلح ڈاکہ زنی اور قزاقی کے اتنے زيادہ واقعات درج کئے ہيں کہ اس سے قبل کسی بھی سال کے پہلے تين مہينوں ميں اتنے زيادہ واقعات نہيں ہوئے تھے۔''
رواں سال کے پہلے تين ماہ کے دوران صوماليہ کے ساحل کے قريب بحری قزاقی کے کُل 97 واقعات ہوئے۔ IMB کے مطابق پچھلے سال کے ابتدائی تين مہينوں ميں اس قسم کے 35 واقعات ہوئے تھے۔ اس سال کے پہلے تين ماہ کے دوران بحری ڈاکؤوں نے 18 جہازوں کو اغوا کيا اور عملے کے 344 افراد کو يرغمال بنا ليا۔ قزاقوں نے مزيد 45 بحری جہازوں پر حملے کئے اور اس کے علاوہ 45 مزيد جہازوں پر فائرنگ کی۔
بين الاقوامی بحری دستے دو سال سے بھی زيادہ عرصے سے بحری قزاقی کا مقابلہ کر رہے ہيں، جس ميں اکثر صومالی قزاقوں ہی کا ہاتھ ہوتا ہے۔ بحرين ميں قائم مشترکہ بحری فوج کے تحت کام کرنے والی اجتماعی ٹاسک فورس 151 جنوری سن 2009 ميں تشکيل دی گئی تھی۔ اس کے ايک ماہ قبل ہی يورپی يونين نے آپريشن اٹالانٹا کے نام سے بحری قزاقی کے مقابلے کے لئے اپنی فوج بنائی تھی۔ نيٹو نے بحری قزاقی کے مقابلے کے لئے اپنے آپريشن کا سلسلہ سن 2008 ميں شروع کيا تھا۔ روس،چين، بھارت اور ايران نے خود اپنے طور پر بحری قزاقی سے نمٹنے کے انتظامات کيے ہيں۔ ليکن ان سب ہی کو اس مسئلے کا سامنا ہے کہ سمندر کے ايک بہت بڑے علاقے ميں گشت کرتے رہنا ضروری ہے، بحری ڈاکؤوں کا تعاقب اور انہيں سزا دينا ايک مشکل کام ہے اور کارروائيوں ميں رابطہ پيدا کرنے والی کوئی متحدہ کمان نہيں ہے۔
سن 1991 کے انقلاب ميں صدر سعيد بارے کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سے صوماليہ ميں کوئی مضبوط حکومت نہيں ہے، ملک خانہ جنگی کی لپيٹ ميں ہے اورمواقع سے محروم کسی ملک ميں قزاقی اور ڈاکہ زنی کے ذريع بہت بھاری رقوم کمائی جا سکتی ہيں۔ مثال کے طور پر صومالی قزاقوں نے بتايا کہ انہوں نے پچھلے سال 25 دسمبر کو اغوا کيے گئے تھائی لينڈ کے ايک جہاز کو پانچ ملين يورو وصول کرنے کے بعد رہا کيا ہے۔
دو روزہ کانفرنس کے ميزبان، تيل کی دولت سے مالامال چھوٹے سے ملک دبئی کو حال ہی ميں بحری قضاقوں سے براہ راست سابقہ پڑ چکا ہے۔ اُس کی خصوصی فوج کو دو اپريل کو، بحيرہء عرب ميں سلطنت اومان کے مشرق ميں ابو ضہبی کے ايک بحری جہاز کو قزاقوں سے چھڑانے کے لئے کارروائی کرنا پڑی تھی۔
رپورٹ: شہاب احمد صديقی
ادارت: امجد علی