بریگزٹ سے متعلق سکاٹش عدالت کا فیصلہ اگلے ہفتے
2 فروری 2018برطانوی دارالحکومت لندن سے دو فروری کو موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ سکاٹ لینڈ کی ایک عدالت کے ایک جج کی طرف سے یہ فیصلہ اگلے ہفتے کے اوائل میں سنایا جائے گا کہ آیا صرف برطانیہ کو اکیلے ہی یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ یورپی یونین کی رکنیت ترک کرنے کا فیصلہ اور اس پر عمل درآمد کر سکے۔
یورپی یونین کی صدارت چھ ماہ کے لیے بلغاریہ کے پاس
بریگزٹ معاہدہ ترکی اور یوکرائن کے لیے ماڈل ہو سکتا ہے، جرمنی
یورپی یونین ختم کی جائے، انتہائی دائیں بازو کی یورپی جماعتیں
سکاٹ لینڈ کی رائل کورٹ آف سیشنز کے ایک ترجمان نے آج جمعے کے روز بتایا کہ یہ مقدمہ ایسے برطانوی اراکین پارلیمان کے ایک گروپ کی طرف سے دائر کیا گیا ہے، جو برطانیہ کے آئندہ بھی یونین کا رکن رہنے کے حق میں ہیں اور یہ فیصلہ پیر پانچ فروری یا منگل چھ فروری کو سنایا جا سکتا ہے۔
اس مقدمے میں درخواست دہندگان نے مطالبہ کیا ہے کہ ایک بار جب یہ طے ہو جائے کہ بریگزٹ کے فیصلے پر ممکنہ عمل درآمد کے معیشت اور سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، تو برطانیہ کو اپنے لیے یہ راستہ بھی کھلا رکھنا چاہیے کہ وہ آئندہ بھی یورپی یونین میں شامل ہی رہے، جو کہ دنیا کا سب سے بڑا تجارتی بلاک ہے۔ سکاٹش عدالت کے فیصلے سے یہ بھی واضح ہو جائے گا کہ آیا یہ رائل کورٹ اس مقدمے کو یورپی عدالت انصاف میں بھیج دینے کا فیصلہ کرتی ہے۔
بریگزٹ کے لیے لازمی کارروائی کے حوالے سے یہ بات بھی اہم ہے کہ برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے یورپی یونین کو باقاعدہ طور پر یہ اطلاع کر چکی ہیں کہ ان کا ملک لزبن معاہدے کے آرٹیکل پچاس کے تحت یورپی یونین سے اخراج کا خواہش مند ہے۔
انتہائی دائیں بازو کی یورپی سیاسی جماعتوں کا پراگ میں اجلاس
یورپ کو داخلی یک جہتی کی ضرورت ہے، جرمن چانسلر
بریگزٹ: یورپی شہریوں سے متعلق برٹش ارادے: دستاویز لیک ہو گئی
ٹریزا مے نے یورپی یونین کی قیادت کو سرکاری طور پر یہ اطلاع 29 مارچ 2017ء کو دی تھی اور اب 29 مارچ 2019ء تک دو سال کے عرصے کے اندر اندر بریگزٹ کا عمل مکمل کیا جانا ہے۔ ساتھ ہی مے یہ بھی کہہ چکی ہیں کہ وہ یہ برداشت نہیں کریں گی کہ بریگزٹ کے عوامی فیصلے پر قانونی عمل درآمد کی راہ میں اب برطانوی پارلیمان میں کوئی رکاوٹیں کھڑی کی جائیں۔
اس کے برعکس گزشتہ برس دسمبر میں برٹش پارلیمنٹ کے کئی ارکان نے مے کی خواہشات کے برخلاف نہ صرف پارلیمان میں ایک رائے شماری بھی کرائی تھی بلکہ انہیں کافی حد تک یہ مشروط اختیار بھی مل گیا تھا کہ وہ بریگزٹ سے متعلق حتمی یورپی برطانوی معاہدے کو قبول کرنے یا اسے مسترد کرنے کا حق بھی حاصل کر سکیں۔
بریگزٹ مذاکرات میں اہم پیش رفت
دریں اثناء لندن ہی میں وزیر اعظم ٹریزا مے کے ایک ترجمان نے کہا کہ وزیر اعظم کو اس بارے میں کوئی شبہ نہیں کہ جب برطانیہ یورپی یونین سے نکل جائے گا تو وہ یورپی کسٹمز یونین کا رکن ملک بھی نہیں رہے گا۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ تب برطانیہ یورپی مشترکہ منڈی کا حصہ بھی نہیں ہو گا۔
اسی دوران بریگزٹ امور کے نگران برطانوی وزیر ڈیوڈ ڈیوس نے کہا ہے کہ ان کے اپنے یورپی مذاکراتی ساتھی اور یونین کے اعلیٰ ترین مذاکراتی مندوب میشیَل بارنیئر کے ساتھ بات چیت کا اگلا دور آئندہ ہفتے پانچ فروری کو لندن میں ہو گا۔