داعش کے خلاف جنگ: اب ایران کی طرف سے چین کو بھی دعوت
24 دسمبر 2015دبئی سے جمعرات چوبیس دسمبر کی شام موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں میں ایرانی خبر رساں ادارے فارس کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ بیجنگ سے داعش کے خلاف جنگ میں زیادہ سرگرم کردار ادا کرنے کا یہ مطالبہ اس ایرانی ادارے کی رکن ایک سرکردہ شخصیت نے کیا، جو ملکی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی مشاورت کا کام کرتا ہے۔
روئٹرز کے مطابق چین اپنی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے زیادہ تر مشرق وسطیٰ کی ریاستوں سے خریدے گئے تیل پر انحصار کرتا ہے لیکن اس خطے میں سفارت کاری کا زیادہ تر کام بیجنگ نے دانستہ طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے دیگر مستقل رکن ملکوں امریکا، برطانیہ، فرانس اور روس پر چھوڑ رکھا ہے۔
ایرانی نیوز ایجنسی فارس کے مطابق انتہائی اہم امور میں ملکی سپریم لیڈر خامنہ ای کی مشاورت کرنے والے ادارے ’مجمع تشخیص مصلحتِ نظام‘ کے سیکرٹری محسن رضائی نے تہران میں ایک چینی وفد کے ارکان سے ملاقات کے بعد کہا، ’’چین ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف جنگ میں زیادہ فعال ہو کر علاقائی امن اور استحکام کے لیے اپنا کردار زیادہ بہتر طور پر ادا کر سکتا ہے۔‘‘
روئٹرز کے مطابق جہاں تک بیجنگ حکومت کی موجودہ ترجیحات کا تعلق ہے تو اس نے پہلے مالی اور پھر پیرس میں حالیہ دہشت گردانہ حملوں اور ترکی میں ایک روسی جنگی طیارے کے مار گرائے جانے کے بعد داعش کے خلاف فضائی حملوں کو زیادہ مربوط بنانے کا مطالبہ تو کیا ہے، لیکن ساتھ ہی چین ہمیشہ سے یہ بھی کہتا آیا ہے کہ شامی تنازعے کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں۔ اسی تناظر میں چین کے سرکاری میڈیا میں شام میں مغربی ملکوں اور روس کی طرف سے کیے جانے والے فضائی حملوں پر تنقید بھی کی جاتی ہے۔
اس کے برعکس اسی مہینے چینی حکام نے اس واقعے کو اپنے لیے ایک تنبیہ کے طور پر لیا تھا کہ دہشت گرد تنظیم داعش نے عام لوگوں کو ’جہاد‘ پر اکسانے والا اپنا ترانے کی طرز کا ایک گیت خاص طور پر چینی زبان میں جاری کیا تھا، جس میں حسب معمول ’جہاد‘ کو ایک اعلیٰ مقصد کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس پر تجزیہ کاروں کی طرف سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ چین سمیت عالمی برادری کو مسلم انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف عالمگیر سطح پر آپس میں قریبی تعاون کی ضرورت ہے۔
بیجنگ حکومت کی طرف سے ماضی میں یہ تنبیہ بھی کی جا چکی ہے کہ چین کے مغربی علاقے سنکیانگ سے ایغور نسل کی مسلم اقلیت سے تعلق رکھنے والے کئی افراد شام اور عراق میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی صفوں میں شامل ہو چکے ہیں۔
اس پس منظر میں محسن رضائی نے آج کہا، ’’اگر چین داعش کے خلاف جنگ میں زیادہ بامعنی کردار ادا کرے تو ایران چینی مسلم برادری کے ساتھ اشتراک عمل اور ثقافتی سرگرمیوں کی صورت میں وسطی ایشیا میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف ٹھوس کردار ادا کر سکتا ہے۔‘‘
شیعہ اکثریتی آبادی والا ملک ایران شام اور عراق میں، جہاں وسیع تر علاقوں پر داعش کے جہادیوں کا قبضہ ہے، اپنی فوجی موجودگی میں کافی اضافہ کر چکا ہے۔ اس کے علاوہ عام طور پر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت کے حق میں اور داعش کے خلاف جنگ میں روس کو اپنی عسکری کارروائیاں شروع کرنے کا قائل بھی ایران ہی نے کیا تھا۔