شامی امن عمل کی بحالی کی کوشش، عالمی رہنما میونخ میں
11 فروری 2016خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بتایا ہے کہ شامی رابطہ گروپ میں شامل سترہ ممالک کے وزرائے خارجہ میونخ میں شامی امن عمل کو آگے بڑھانے کے لیے مختلف تجاویز پر غور کریں گے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور ان کے روسی ہم منصب سیرگئی لاوروف کے علاوہ سعودی اور ایرانی وزرائے خارجہ بھی اس ملاقات میں شریک ہوں گے۔
شامی صوبے حلب میں روسی فضائیہ کی شدید بمباری کی وجہ سے یہ عمل تعطل کا شکار ہو چکا ہے۔ شامی اپوزیشن اتحاد کا کہنا کہ جب تک ماسکو حکومت باغیوں کے خلاف اپنی عسکری کارروائی ترک نہیں کرتی، امن مذاکرات فائدہ مند ثابت نہیں ہو سکتے۔ یہ کہتے ہوئے سعودی نواز اپوزیشن اتحاد امن عمل سے الگ ہو چکا ہے۔
روسی جنگی طیاروں کی بمباری اور ایرانی فورسز کے تعاون سے شامی فورسز نے حلب شہر کا محاصرہ کر لیا ہے۔ ان خونریز کارروائیوں کے نتیجے میں ہزاروں مزید افراد بے گھر ہو کر ترکی کا رخ کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
ایسا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ شامی خانہ جنگی ميں اس تازہ پيش رفت کی وجہ سے مہاجرین کی ایک بڑی تعداد یورپ کا رخ کر سکتی ہے۔ يورپ کو پہلے ہی دوسری عالمی جنگ کے بعد مہاجرین کے سب سے بڑے بحران کا سامنا ہے۔
تازہ عسکری کارروائیوں کی وجہ سے ہزاروں شامی باشندے حلب سے متصل ترک سرحدی علاقوں میں پہنچ چکے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ یکم فروری سے شروع ہونے والے اس تازہ تشدد کی وجہ سے کم از کم پانچ سو افراد ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔
روس بمباری روک دے، امریکا
واشنگٹن حکومت کی کوشش ہے کہ حلب میں فائر بندی کا معاہدہ طے پا جائے تاکہ باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں پھنسے شہريوں کو فوری مدد پہنچائی جا سکے۔ تاہم ساتھ ہی امریکا نے خبردار کیا ہے کہ اگر مذاکرات کی تازہ کوشش ناکام ہو جاتی ہے اور روسی بمباری سے تناؤ میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے تو کوئی دوسرا راستہ بھی اختیارکيا جا سکتا ہے۔
جان کیری نے شام کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ’’حلب اور علاقائی سطح پر روس کی کارروائیوں کی وجہ سے یہ مشکل ہوتا جا رہا ہے کہ مل بیٹھ کر سنجیدہ گفتگو شروع کی جا سکے۔‘‘ شام میں داعش کے خلاف جاری امریکی کارروائی کی نگرانی کرنے والے خصوصی مندوب بریٹ مک گروک کے مطابق شام میں روسی جیٹ طیاروں کی بمباری کی وجہ سے ’جہادی‘ مضبوط ہو رہے ہیں۔
دوسری طرف روس نے کہا ہے کہ وہ میونخ مذاکرات میں شامی امن عمل کو شروع کرنے کے لیے کچھ نئے منصوبہ جات پیش کرے گا۔ تاہم مبصرین کا خیال ہے کہ موجودہ صورتحال میں مصالحت کا امکان کم ہی ہے۔ روس اور ایران شامی صدر بشار الاسد کے اہم حامی ممالک ہیں۔
کئی مبصرین کا کہنا ہے کہ شامی تنازعے کی وجہ سے جنم لینے والے بحران کی وجہ سے ماسکو حکومت فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہے، بالخصوص یورپ میں مہاجرین کے بحران کی وجہ سے۔ یونیورسٹی آف آکسفورڈ سے وابستہ محقق Koert Debeuf نے اے ایف پی کو بتایا، ’’روس کے لیے شامی جنگ، صدر اسد سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔۔۔ روسی صدر ولادیمیر پوٹن کا مقصد یورپ کو کمزور اور عدم استحکام کا نشانہ بنانا ہے۔‘‘
کچھ مبصرین نے امریکا کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ وہ باغیوں کی مدد کے لیے زیادہ اقدامات نہیں کر رہا ہے۔ اس تناظر میں سبکدوش ہونے والے فرانسیسی وزیر خارجہ لاراں فابیوس نے کہا ہے کہ اس تمام معاملے میں امریکا کا عزم بہت زیادہ پختہ نظر نہیں آتا۔ اسی طرح ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھی امریکا کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔