1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لاہور میں عمران خان کی رہائش گاہ کا پولیس محاصرہ جاری

18 مئی 2023

پاکستانی پولیس نے لاہور میں عمران خان کے گھر کا گھیراؤ جاری رکھا ہوا ہے۔ پی ٹی آئی چیئرمین کو ان کے گھر میں مبینہ طور پر چھپے درجنوں مشتبہ افراد کو حوالے کرنے کے لیے 24 گھنٹے کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی۔

https://p.dw.com/p/4RXKi
پاکستان تحریک انصاف کے کارکن زمان پارک میں عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
عمران خان پاکستانی عدالتوں میں 100 سے زائد مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔تصویر: Musa Virk/Twitter/REUTERS

پاکستان کے شہر لاہور میں  عمران خان کی رہائش گاہ زمان پارک  کا قانون نافذ کرنے والے اداروں نے محاصرہ جاری رکھا ہے۔ پولیس نے عمران خان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنے گھر میں مبینہ طور پر پناہ لیے ہوئے 40 مشتبہ افراد کو 24 گھنٹے کے اندر اندر ان کے حوالے کر دیں۔

پرتشدد مظاہرے

گزشتہ ہفتے سابق وزیر اعظم عمران خان کی اسلام آباد ہائی کورٹ سے ڈرامائی انداز میں گرفتاری کے بعد ملک گیر پرتشدد مظاہرے  شروع ہوگئے تھے۔ مظاہرین نے سرکاری املاک اور فوجی تنصیبات پر حملے کیے تھے۔ ملک بھر میں پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں کم از کم 10 افراد ہلاک ہو گئے۔ ان پرتشدد کارروائیوں میں اس وقت کمی ہوئی جب  پاکستان کی سپریم کورٹ  نے عمران خان کی گرفتاری کو کالعدم قرار دیا اور بعد میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی رہائی کا حکم دے دیا۔ بعد ازاں پی ٹی آئی چیئرمین اسلام آباد سے لاہور میں اپنی رہائش گاہ زمان پارک روانہ ہوگئے تھے۔

ریڈیو پشاور کی تباہی ذمہ دار کون؟

زمان پارک کا محاصرہ

اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی کے درجنوں کارکن ان کے نجی محافظ بن کر ان کے ساتھ وہاں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق پی ٹی آئی کے 200 سے 300 کے درمیان کارکن، عموماﹰ لاٹھیاں تھامے، 24 گھنٹے عمران خان کی رہائش گاہ کی حفاظت کرتے ہیں، لیکن ان میں سے زیادہ تر راتوں رات غائب ہو گئے۔

24 گھنٹے کی ڈیڈ لائن  پاکستان کے مقامی وقت کے مطابق آج جمعرات دن کے دو بجے ختم ہو رہی ہے۔ تاہم ابھی یہ واضح نہیں کہ ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد پولیس کا ردعمل کیا ہوگا۔ اس دوران پولیس نے گھر کی طرف جانے والی ایک سڑک بند کر رکھی ہے اور علاقہ مکینوں سے کہا ہے کہ وہ متبادل راستہ استعمال کریں۔

پاکستان تحریک انصاف کے حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے
حکومت مخالف مظاہروں میں ملوث افراد کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائیں گے، پاکستانی حکام تصویر: W.K. Yousafzai/AP Photo/picture alliance

عمران خان کی اگلی گرفتاری کا خدشہ

70 سالہ اپوزیشن لیڈر  عمران خان نے بدھ کے روز محاصرہ شروع ہونے کے بعد ایک ٹویٹ میں لکھا،  ''شاید میری اگلی گرفتاری سے پہلے یہ میری آخری ٹویٹ ہے۔ پولیس نے میرے گھر کو گھیرے میں لے لیا ہے۔‘‘ بعد ازاں عمران خان نے اپنے کارکنوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پولیس صرف سرچ وارنٹ کے ساتھ ان کے گھر کی تلاشی لے سکتی ہے اور  ''افراتفری پھیلانے سے اندر نہیں گھس سکتی۔‘‘

پنجاب کی صوبائی حکومت کے وزیر اطلاعات عامر میر کے مطابق حملہ ہونے کی صورت میں پولیس سخت جوابی کارروائی کرنے کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے جمعرات کو ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ جھڑپوں سے منسلک کم از کم 3,400 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اور مزید چھاپوں کا منصوبہ ہے۔

فوجی عدالتوں میں مقدمے

پاکستانی حکام نے کہا ہے کہ وہ حکومت مخالف مظاہروں میں ملوث افراد کے خلاف  فوجی عدالتوں میں مقدمات  چلائیں گے۔ اس اعلان پر ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی جانب سے شدید تنقید کی گئی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کی مخالفت کرتی ہیں۔ پاکستان میں فوجی ٹرائلز عام طور پر بند دروازوں کے پیچھے ہوتے ہیں، جس سے عام شہریوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔

سابق وزیر اعظم عمران خان کو گزشتہ سال پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا، جس کے بعد انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی برطرفی غیر قانونی تھی اور ایک مغربی سازش تھی۔

پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان پاکستانی عدالتوں میں 100 سے زائد مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں، جن میں کرپشن کے الزامات  سمیت عوام کو تشدد پر اکسانے، سیاسی ریلیوں کی پابندی کی خلاف ورزیاں کرنے اور اہلکاروں کو دھمکیاں دینے جیسے سنگین الزامات شامل ہیں۔

ع آ / ا ب ا (اے پی، روئٹرز)

پاکستان کا سیاسی مستقبل غیر یقینی کا شکار

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں