ولادیمیر پوٹن کو اقتدار میں آئے پچیس سال کا عرصہ مکمل
8 اگست 2024سابق سوویت اور روسی سیاسی رہنما بورس یلسن نے نو اگست سن 1999 کو ولادیمیر پوٹن کو روس کا وزیر اعظم نامزد کیا تھا۔ تب صدر کے عہدے پر تعینات بورس یلسن کو شائد علم نہ تھا کہ پوٹن کا اقتدار اتنا طویل ہو گا۔
سوویت سیاسی و انقلابی رہنما جوزف اسٹالن کے بعد پوٹن سب سے زیادہ طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے والی شخصیت ہیں۔ اسٹالن نے سن 1924 تا 1954ء تک سوویت یونین کی قیادت کی۔ ان کی موت ہی انہیں اقتدار سے الگ کر سکی۔ انتقال کے وقت ان کی عمر 74 برس تھی۔
سات اکتوبر سن 1952 میں پیدا ہونے والے ولادیمیر پوٹن اکہتر برس کے ہو چکے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ روس پر ان کی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ مستقبل قریب تک ان کو سیاسی سطح پر چیلنج کرنے والا دور دور تک نظر نہیں آتا۔
پوٹن کے اقتدار کی مختصر تاریخ
سوویت خفیہ ایجسنی کے سابق ملازم پوٹن نو اگست انیس سو ننانوے کو وزیر اعظم بنائے گئے تھے اور اسی سال اکتیس دسمبر کو بورس یلسن نے صدر کے عہدے سے اچانک مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے پوٹن کو نگران صدر بنا دیا تھا۔
امریکہ نے مودی اور پوٹن کی دوستی پر بھارت کو خبردار کیا
پوٹن کا یوکرین سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ اور امن کے لیے سربراہی کانفرنس
صدراتی الیکشن اگلے سال مارچ میں منعقد ہوئے، جس میں کامیابی کے بعد پوٹن نے چھبیس مارچ سن 2000 کو صدر کا عہدہ سنبھال لیا۔ پوٹن نے چار سال بعد منعقد ہونے والے صدارتی الیکشن میں بھی کامیابی حاصل کی جبکہ سن 2008 کے صدارتی الیکشن میں دمتری میدویدف صدر بنے تو انہوں نے پوٹن کو وزیر اعظم بنا دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ تب روسی الیکشن قوانین کے مطابق کوئی شخص مسلسل دو مرتبہ ہی صدر بن سکتا تھا۔
تاہم بعد ازاں اس شرط کو ختم کر دیا گیا اور صدر کی مدت کا دورانیہ چار سال سے بڑھا کر چھ سال کر دیا گیا۔ پوٹن نے بعدازاں سن دو ہزار بارہ کا صدارتی الیکشن لڑا اور کامیابی حاصل کی اور پھر سن 2024 کے انتخابات میں بھی۔
روسی ماہر سیاسیات میخائل کومین کا کہنا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے اپنے پچیس سالہ دور اقتدار میں ملک کو 'دنیا کی سب سے مضبوط شخصی آمریت‘ میں تبدیل کر دیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس دوران پوٹن نے ملک کے سبھی ادروں کو کمزور ہی کیا ہے۔
علاقائی تسلط سے طاقتور بننے کی کوشش
کومین کے بقول روس میں یہ سب کچھ علاقائی خودمختاری کے خاتمے کے بعد شروع ہوا۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد کریملن نے روسی علاقوں پر سیاسی تسلط جمانے کی کوشش شروع کی، جس نے اقتدار کے ایوانوں میں طاقت کے استحکام کی بنیاد رکھی۔
فن لینڈ سے تعلق رکھنے والے ایک اور روسی ماہر سیاسیات گریگوری نشنیکوف بھی اسی خیال سے اتفاق کرتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اگر ہم پوٹن کے ابتدائی دور کے روس پر نظر ڈالیں، تو ہمیں طاقت کے کئی خود مختار مراکز دکھنے کو ملتے ہیں، جن میں آئینی اور غیر رسمی قسم کے ادارے سبھی شامل تھے۔‘‘
نشنیکوف کے بقول یہ نظام پوٹن کے آمرانہ رویے کے لیے مسائل کا باعث تھا، اس لیے پوٹن نے یہ سب تباہ کر دیا، اور خود کو طاقت کا منبع بنا دیا۔
تاہم نشنیکوف کا کہنا ہے کہ صرف یہی واحد وجہ نہیں ہے کہ پوٹن اتنے طویل عرصے سے اقتدار میں ہیں۔ گزشتہ 25 سالوں میں بہت سے ایسے واقعات ہوئے ہیں، جو پوٹن کے لیے خطرناک ہو سکتے تھے۔ مثال کے طور پر،
- سن 2011 کے پارلیمانی انتخابات کے بعد ماسکو کے بولوتنایا اسکوائر میں احتجاج۔
- سن 2014 میں یوکرین کے علاقے کریمیا کے الحاق کے بعد اس جزیزہ نما ریجن میں عدم استحکام کا خطرہ۔
- سن 2018 میں متنازعہ پنشن اصلاحات کے بعد پیدا ہونے والی عوامی بے چینی۔
- کریملن کے نقاد الیکسی ناوالنی کی موت پر بڑے پیمانے پر مظاہرے، جو مزید کچھ سال جاری رہ سکتے ہیں۔
- یوکرین میں جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی ماسکو اور سینٹ پیٹرزبرگ کی سڑکوں پر احتجاج۔
نشنیکوف کہتے ہیں کہ تاہم روسی حکومت کی طرف سے عوامی مزاحمت کی ہر نئی کوشش کو اور زیادہ جبر سے کچل دیا گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روس میں اب کوئی ایسا شخص نہیں بچا ہے، جو پوٹن کو چیلنج کر سکے۔
عدلیہ کا کمزور ہونا، پوٹن کی طاقت میں اضافے کا ایک اور سبب
میخائل کومین کا کہنا ہے کہ ایک اور اہم عنصر جس نے پوٹن کو اقتدار میں رہنے کے قابل بنایا وہ ان کی دوسری مدت کے دوران عدالتوں کو دانستہ طور پر کمزور کرنا تھا۔ حکام کے وفادار سبھی چیف جسٹس اپنے ماتحتوں کے مقابلے میں زیادہ اختیارات کے مالک بن چکے ہیں۔
کومن کہتے ہیں کہ اس لیے اب روسی عدالتیں آزاد نہیں رہی ہیں۔ اب یہ عدالتیں شہریوں کے خلاف ریاستی جبر کے عمل کو سست تو کر سکتی ہیں لیکن روک نہیں سکتی ہیں۔
ملک کے الیکٹورل سسٹم کو بھی صدر پوٹن اور ان کی حکمران سیاسی جماعت یونائیٹڈ روس کے حق میں بدلا جا چکا ہے۔
پوٹن کی ’شیڈو کابینہ‘
روسی ماہر سماجیات الیگزینڈر بیبیکوف کے مطابق ڈومیسٹک اپوزیشن کا سامنا کرنے کے بجائے صدر پوٹن نے خود کو ایک طرح سے اپنی 'شیڈو کابینہ‘ میں ہی پابند کر دیا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں انہوں نے مزید کہا کہ صدر پوٹن نے اس اندرونی دائرے میں ایسے لوگوں کو جمع کر رکھا ہے، جن کے ساتھ ان کے مخصوص کاروباری مفادات نتھی ہیں۔
بیبیکوف کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ کچھ کمپنیوں کو بڑے سرکاری ٹھیکے دیے گئے ہیں، جس کی وجہ سے انہیں بھاری رقوم ملی ہے۔ ان کے بقول البتہ کنٹرول پوٹن کا ہی ہے اور وہ ذاتی طور پر ایسے کاروباری معاملات میں شامل ہیں۔
صدر پوٹن کا حیران کن فیصلہ، وزیر دفاع کو تبدیل کردیا
یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے چین روس پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے، شولس
لیکن دوسری طرف عوام میں روس کی ایک ایسی تصویر پیش کی جا رہی ہے، جس میں اس ملک نے اپنی پوری تاریخ میں صرف مثبت کردار ہی ادا کیا ہے۔ بیبیکوف کہتے ہیں کہ اس پراپیگنڈے کے تحت تمام منفی پہلو مٹا دیے گئے ہیں جبکہ ماضی کے تمام تر تنازعات کو بھی پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ بیبیکوف کے مطابق اس وجہ سے بھی ملکی سطح پر پوٹن کی پوزشن بہتر ہوئی ہے۔
ڈی ڈبلیو کو انٹرویو دینے والے یہ تینوں ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ مستقبل میں ان رجحانات میں شدت آئے گی اور پوٹن آنے والے طویل عرصے تک اقتدار میں رہیں گے۔ میخائل کومین کا کہنا ہے کہ 'مسئلہ یہ ہے کہ کوئی متبادل امیدوار نہیں ہے اور نہ ہی کسی کے لیے کوئی جگہ ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ پوٹن کے روس میں سن 2004 کے بعد سے اب تک سب کچھ غیر منصفانہ رہا ہے۔
گریگوری نشنیکوف کا یہ بھی کہنا ہے کہ روسیوں کو پوٹن کا کوئی متبادل نظر نہیں آتا اور وہ تبدیلی سے ڈرتے ہیں۔ ان کا مشاہدہ ہے کہ روس میں ہمیشہ سے طاقتور حکومت کو حمایت حاصل ہوتی ہے۔
نشنیکوف کے بقول، ''وہ (روسی) ہمیشہ سے ایک مضبوط رہنما چاہتے ہیں، ایسا رہنما جو فیصلے کرے اور مسائل کو حل کرے۔ اگر عوام کو کوئی شک ہو تو وہ صدر کے بجائے علاقائی گورنروں کو قصوروار قرار دیں گے۔ جیسا کہ اگر پوٹن کو علم ہو تو وہ عوامی مسائل خود ہی حل کر دیں گے۔‘‘ نشنیکوف کا کہنا ہے کہ یہ صدیوں پرانی روسی روایت ہے۔
یوری ریشیتوف (عاطف بلوچ، ش ر)
یہ آرٹیکل پہلی مرتبہ جرمن زبان میں شائع کیا گیا تھا