پاپوآ نیوگنی میں مہاجر بستی کی بندش، شدید کشیدگی
30 اکتوبر 2017مانُس جزیرے پر واقع حراستی مرکز میں قریب آٹھ سو تارکین وطن موجود ہیں اور اسے منگل کے روز ختم کر دیا جائے گا۔ پاپوآ نیوگنی کی سپریم کورٹ نے گزشتہ برس اپنے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ تارکین وطن کو اس طرح حراست میں رکھنا غیرآئینی عمل ہے۔
ناؤرو کے مہاجرین کی امیدیں پھر ڈوب گئیں
پیسیفک کے تارکین وطن، چھان بین کے لیے ٹرمپ اجازت کے منتظر
مہاجرین: امریکی آسٹریلوی ڈیل کی تفصیلات خفیہ کیوں؟
آسٹریلیا پہنچنے کی کوشش کرنے والے ان تارکین وطن کو آسٹریلیا کی بحیرہ سمندر ہی سے حراست میں لے کر پاپوآ نیوگنی کے جزائر میں سے ایک پر واقع اس حراستی مراکز پر لاتی رہی ہے۔ پاپوآنیوگنی میں قائم ان حراستی مراکز کا انتظام و انصرام آسٹریلیا کے پاس تھا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ کینبرا حکومت ان مہاجرین کے مستقبل سے متعلق اپنے منصوبوں کو بیان کرے، تاکہ ان تارکین وطن کو لاحق بے یقینی کی کیفیت کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔
بحرالکاہل کے علاقے میں واقع ان دو مہاجر بستیوں میں سے ایک کو پانی اور بجلی کی فراہمی کاٹی جا رہی ہے، جب کہ اندیشے ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ ان تارکین وطن کو زبردستی کسی عارضی مرکز میں منتقل کیا جائے گا اور ان کے مستقبل کا فیصلہ بعد میں ہو گا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس صورت حال کو ’انتہائی کشیدہ‘ قرار دیتے ہوئے زور دیا ہے کہ تمام سکیورٹی اہلکار بین الاقوامی قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں اور کسی ناخوش گوار صورت حال میں طاقت کے بے دریغ استعمال سے اجتناب کریں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی پیسیفک کے خطے کے لیے ریسرچر کیٹ شوئٹزے کے مطابق، ’’آسٹریلیا اور پاپوآ نیو گنی کی حکومتیں تشدد سے اجتناب کے تمام تر اقدامات کریں اور ان مہاجرین کی سلامتی کو یقینی بنایا جائے۔‘‘
مانُس جزیرے پر موجود سیاسی پناہ کے جائز درخواست گزاروں کو بھی آسٹریلیا میں بسانے پر قدغنیں عائد ہیں۔
ان افراد سے کہا جا رہا ہے کہ وہ یا تو ایک دوسرے جزیرے ناؤرو پر واقع مہاجر بستی میں منتقل ہو جائیں یا پھر اپنے اپنے وطن لوٹ جائیں اور یا پھر کمبوڈیا میں بسنے کے لیے رضامندی ظاہر کر دیں۔ ان افراد کو چوتھا اور آخری امکان یہ دکھایا جا رہا ہے کہ وہ پاپوآ نیو گنی ہی میں اپنی زندگی بسر کریں۔
سابق امریکی صدر باراک اوباما کے دور میں طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت مانُس اور ناؤرو جزائر پر موجود افراد کو امریکا میں بسایا جانا تھا، تاہم امریکا نے اب تک ان میں سے چند ہی تارکین وطن کو قبول کیا ہے۔