پاکستان: ایک کروڑ سے زائد نئے ووٹر، مرد خواتین سے کہیں زیادہ
20 اکتوبر 2017پاکستان میں نادرا کہلانے والی قومی رجسٹریشن اتھارٹی کے ڈیٹا کی روشنی میں الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابی فہرستوں میں آبادی میں ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے رد و بدل ایک مستقل عمل ہے۔ پاکستان میں اگلے عام انتخابات آئندہ برس متوقع ہیں۔ قومی سطح پر موجودہ انتخابی فہرستوں کے بارے میں اعداد و شمار ابھی حال ہی میں الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کیے گئے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق اس وقت ملک میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 97 ملین یا پونے دس کروڑ کے قریب ہے۔ ان میں سے اٹھارہ سے لے کر پچیس سال تک کی عمر کے نوجوان ووٹروں کی تعداد ڈیرھ کروڑ کے قریب بنتی ہے۔ ان نوجوان ووٹروں میں سے ایک کروڑ سے زائد ایسے ہیں، جو 2018ء کے عام انتخابات میں پہلی بار ووٹ دیں گے۔
پاکستانی الیکشن کمیشن کا ملی مسلم لیگ کی رجسٹریشن سے انکار
کلثوم نواز کی جیت۔۔ مختلف شہروں میں جشن
الیکشن کمیشن نے عمران خان کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے
پاکستان میں ووٹروں کی موجودہ لسٹوں کے حوالے سے حیران کن بات یہ بھی ہے کہ کل مرد ووٹروں کی تعداد پانچ کروڑ چالیس لاکھ ہے جبکہ خواتین ووٹروں کی مجموعی تعداد تقریباﹰ چار کروڑ بیس لاکھ بنتی ہے۔ یوں خواتین ووٹروں کی کل تعداد مرد ووٹروں کے مقابلے میں ایک کروڑ بیس لاکھ یا بارہ ملین کم ہے حالانکہ ملکی آبادی میں مردوں اور خواتین کی شرح میں اتنا زیادہ فرق نہیں ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ قومی الیکشن کسی بھی ملک کی سیاسی ترجیحات اور سماجی و معاشی ترقی کا تعین کرتے ہیں۔ پاکستان میں 2018ء کے عام انتخابات اس لیے مختلف ہوں گے کہ ان میں اپنی زندگی میں پہلی بار پولنگ اسٹیشنوں کا رخ کرنے والے ایک کروڑ سے زائد نوجوان اس عوامی فیصلے میں اہم کردار ادا کریں گے کہ اگلی ملکی حکومت کون سی جماعت یا جماعتیں بنائیں گی۔ اسی وجہ سے ملکی آبادی اور ووٹروں کی لسٹوں سے متعلق تازہ ترین اعداد و شمار سبھی سیاسی جماعتوں کے لیے ایک چیلنج بن گئے ہیں۔
نواز شریف نا اہل، ملک میں سیاسی ہلچل
نواز شريف کو سپریم کورٹ نے نا اہل قرار دے دیا
پاکستان کی سوا کروڑ خواتین، جو ’ہیں، پر نہیں ہیں‘
پاکستان جیسے کسی ملک میں خواتین رائے دہندگان کی مجموعی تعداد مردوں کے مقابلے میں بارہ ملین کم کیوں ہے؟ اس کا مطلب یہ نہیں کہ خواتین کی تعداد کروڑوں کے حساب سے کم ہے۔ اس کے برعکس مردوں کے مقابلے میں خواتین ووٹروں کی رجسٹریشن کم ہوئی ہے۔ ووٹرز لسٹوں میں عورتوں کی کم رجسٹریشن کے دو بنیادی اسباب ہیں۔ ایک سماجی طور پر وہ صنفی عدم مساوات، جس کے باعث خواتین کے حقوق پر سرکاری اور نجی کسی بھی سطح پر ترجیحی بنیادوں پر کام نہیں ہوتا۔ دوسری وجہ ملکی سیاسی جماعتوں کی خواتین ووٹرز میں ناکافی دلچسپی اور سہولیات کی کمی ہے۔
پاکستان کے کچھ حصوں میں تو قبائلی یا روایتی قدامت پسندی کے باعث خواتین کے سیاست میں حصہ لینے حتیٰ کہ ان کی طرف سے ووٹ دینے تک کی مخالفت کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ حکومت کی بھی ناکامی ہے کہ وہ 18سال سے زائد عمر کی تمام خواتین کے شناختی کارڈ بنانے میں ناکام رہی ہے، اس لیے کہ پاکستان میں ووٹ ڈالنے کے لیے کسی بھی ووٹر کے پاس شناختی کارڈ ہونا لازمی ہوتا ہے۔
پاکستان میں انتخابی فہرستوں سے متعلق ڈیٹا کن حقائق کی نشاندہی کرتا ہے، اس بارے میں ڈی ڈبلیو نے گفتگو کی اسلام آباد میں ملکی الیکشن کمیشن کے ڈائریکٹر الطاف احمد سے۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ہمارا کام مردم شماری نہیں، لیکن ووٹروں کی فہرستوں کی تیاری ایک مسلسل جاری رہنے والا عمل ہے۔ ہم نادرا کے تعاون سے یہ لسٹیں اپ ڈیٹ کرتے رہتے ہیں۔ نئے ووٹروں کا اندراج کیا جاتا ہے اور انتقال کر جانے والے بالغ شہریوں کے نام ان فہرستوں سے خارج کر دیے جاتے ہیں۔‘‘
پاکستان: الیکشن کمیشن نے وزیراعظم نا اہلی کیس کی سماعت روک دی
الیکشن کے مہینوں بعد بھی پنجاب مقامی حکومتوں سے محروم
نواز شریف کے شہر میں عمران خان ’پاورشو‘
الطاف احمد کے مطابق پاکستان میں ووٹروں کے لازمی اندراج اور لازمی ووٹ کا کوئی قانون نہیں۔ انہوں نے کہا کہ غیر رجسٹرڈ پاکستانی ووٹروں کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ شہری جن کے بالغ ہو جانے کے باوجود قومی شناختی کارڈ ابھی نہیں بنے۔ دوسرے وہ شہری جن کے شناختی کارڈ تو بن چکے ہیں لیکن جن کی بطور ووٹر رجسٹریشن ابھی نہیں ہوئی۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اس ڈائریکٹر نے اس مسئلے کے حل سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’مردوں کے مقابلے میں خواتین ووٹرز بارہ ملین کم ہیں۔ اس صورتحال میں بہتری کے لیے الیکش کمیشن نے نئے ووٹرز کی رجسٹریشن کے لیے نادرا کے ساتھ مل کر ایک خصوصی مہم شروع کر رکھی ہے۔ اس مہم کے تحت دیہی علاقوں میں گھر گھر جا کر عورتوں کے شناختی کارڈز بنوانے اور انہیں بطور ووٹر رجسٹریشن کا قائل کرنے کی بھی بھرپور کوششیں جاری ہیں۔ دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن کے لیے اسی فیصد ٹرن آوٹ کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ ہر ضلع کی سطح پر ڈسٹرکٹ ووٹر ایجوکیشن کمیٹیاں بنائی گئی ہیں، جن میں سرکردہ مقامی شخصیات اور سول سوسائٹی اور میڈیا کے نمائندے بھی شامل ہیں۔‘‘
معروف سیاسی تجزیہ نگار حسن عسکری سے جب ڈی ڈبلیو کی طرف سے یہ پوچھا گیا کہ پاکستان کے ایک کروڑ سے زائد نوجوان ووٹر پہلی بار ووٹ دیتے ہوئے کس بات کو زیادہ اہمیت دیں گے، تو انہوں نے کہا، ’’نوجوانوں کا مسئلہ ان کی اپنے مستقبل سے متعلق سوچ ہے۔ انہیں فکر ہوتی ہے کہ حصول تعلیم کے بعد بھی ان کا مستقبل محفوظ ہے یا نہیں۔ تو یہی نوجوان بطور ووٹر یہ بھی دیکھیں گے کہ مختلف سیاسی جماعتیں کسی طرح کے انتخابی منشور پیش کرتی ہیں۔‘‘
حسن عسکری کے مطابق یہ سارے نئے ووٹ ایک طرف نہیں جائیں گے بلکہ تقسیم ہو جائیں گے۔ بڑی پارٹیوں میں سے عمران خان کی تحریک انصاف کی طرف بھی نوجوانوں کا جھکاؤ ہے۔ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کو بھی ایسے ووٹ ملیں گے۔ پھر ایسے کچھ ووٹ مذہبی جماعتیں بھی لیں گی۔ مجموعی طور پر پاکستانی سیاست میں دھڑے بندی اتنی زیادہ اور واضح ہے کہ یہ سارے ایک کروڑ سے زائد نئے ووٹ کسی ایک طرف جا ہی نہیں سکتے۔‘‘
مردوں کے مقابلے میں خواتین ووٹروں کی کم تعداد کے بارے میں حسن عسکری نے کہا، ’’سب سے بڑا مسئلہ رجسٹریشن کا نہ ہونا ہے۔ خاص کر دور دراز علاقوں میں، جہاں معاشرہ عورت کو آزادی نہیں دیتا اور عورت کے گھر سے باہر نکلنے کو بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اس وجہ سے بہت سے ووٹ رجسٹر ہوتے ہی نہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسی خواتین کے حقوق کے لیے پارلیمان میں بیٹھی خواتین بھی کچھ نہیں کر رہیں۔ سیاسی پارٹیوں کی رکن خواتین اکثر صرف پارٹی اراکین کے طور پر ہی سرگرم رہتی ہیں۔‘‘
اسی بارے میں جب ڈی ڈبلیو نے پشاور یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور معروف تجزیہ نگار پروفیسر قبلہ ایاز سے رابطہ کیا، تو انہوں نے بتایا، ’’پاکستان کے مختلف حصوں میں رہنے والے نوجوانوں کی سوچ بڑی متنوع ہے۔ نوجوانوں کی بڑی تعداد ملک میں کرپشن سے تنگ آ چکی ہے۔ یہ نوجوان خود کو محروم سمجھتے ہیں، ان کے مطابق معاشرہ مجموعی طور پر کرپٹ ہے اور اشرافیہ دولت پر قابض ہے۔ یہ نوجوان ایسی حکومت چاہتے ہیں جو ملک کو بدعنوانی سے نجات دلائے۔ بلوچستان اور فاٹا کے قبائلی علاقوں کے نوجوان تو خود کو خاص طور سے محرومی کا شکار سمجھتے ہیں۔‘‘
پروفیسر قبلہ ایاز نے مزید کہا، ’’دیہی علاقوں میں رجسٹرڈ خاتون ووٹروں کی تعداد کم ہے۔ لیکن شہری علاقوں میں صورت حال خاصی بہترہے۔ ہمارے ہاں ایسی جمہوریت ہے جو مکمل یا آئیڈیل جمہوریت تو بالکل نہیں لیکن سول سوسائٹی کا بہتری کی طرف سفر جاری ہے۔‘‘