1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’گوادر بندر گاہ کا مکمل اختیار صوبہ بلوچستان کو دیا جائے‘

رپورٹ: شکور رحیم/ اسلام آباد10 جنوری 2016

پاکستان میں مخلتف سیاسی جماعتوں نے حکومت پر زور دیا ہے کہ گوادر بندر گاہ کا مکمل اختیار صوبہ بلوچستان کو دیا جائے اور بلوچستان کے ساحل اور دیگر وسائل پر صوبے کے اختیار اور حق ملکیت کو تسلیم کیا جائے۔

https://p.dw.com/p/1Hb1E
تصویر: DW/S. Raheem

اتوار کو بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے زیر اہتمام پاک چین اقتصادی راہداری کے موضوع پر اسلام آباد کے ایک مقامی ہوٹل میں کل جماعتی کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے راہنماؤں نے شرکت کی۔

اس کانفرنس کے دوران مخلتف قرادادوں کی منظوری دی گئی اور بعد میں ایک مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا ۔اقتصادی راہداری پر آل پارٹیز کانفرنس کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اٹھائیس مئی کو وزیراعظم نواز شریف کی سربراہی میں بلائی گئی اے پی سی میں کیے گئے وعدے پورے ہونے چاہییں ۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان کی عوام کو اقلیت میں تبدیل کرنے سے روکنے کیے لیے قانون سازی کی جائے۔

اعلا میے میں مزید کہا گیا ہے کہ گوادر کی عوام کو تمام بنیادی سہولیات فراہم کی جائی اور مقامی منصوبوں میں گوادر کی عوام کو ترجیح دی جائے۔ اعلامیے کے مطابق گوادر کے ماہی گیروں کے لیے متبادل روزگار کا انتظام کیا جائے اور انکی ہزاروں ایکڑ زمین انکے حوالے کی جائے۔ اعلامیے میں گوادر کے لوگوں پر عائد سیاسی سرگرمیوں پر پابندی ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے گوادر کے عوام کوتقسیم کرنے کی پالیسی کی مخالفت اور گوادر کے شہریوں کو نئے شناختی کارڈ جاری کرنے کی مذمت کی گئی۔

خیال رہے کہ چین اور پاکستان نے گذشتہ سال چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کی بنیاد رکھی تھی۔ جس کے تحت چھالیس ارب ڈالر کی لاگت سے چین کو بذریعہ زمینی رستے اور ریلوے ٹریک، گوادر بندرگاہ سے ملایا جائے گا۔ تاہم پاکستان میں مختلف سیاسی جماعتیں اس منصوبے پر حکومتی پالیسی سے متفق نہیں ہیں۔ یہ جماعتیں اس راہداری کے نقشے پر بھی متعدد اعتراضات کر چکی ہیں۔

Islamabad - Verhandlung über die Wirtschaftkorridore
اس اجلاس میں پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے راہنماء شریک ہوئےتصویر: DW/S. Raheem

کانفرنس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ اگر پاکستان کو چلانا ہے تو انصاف کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ "اگرکوئی چاہتا ہے کہ پاکستان ترقی کرے تو اس کا ایک ہی راستہ ہے۔ جب تک مقامی لوگوں کو حکومت کرنے کا حق نہیں ملے گا ملک نہیں چلے گا ۔وزیراعظم حکمرانی مقامی لوگوں کو دینے کا اعلان کریں"۔

انہوں نے کہا کہ اقتصادی راہداری امن کے بغیر نہیں بن سکتی اور جب تک تمام ادارے اپنی حدود میں نہیں رہیں گے ملک نہیں چلے گا ۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کی تاریخ گواہ ہے "عوام جیتی اور فوجیں ہاری ہیں۔ " انہوں نے کہا کہ ادارے خود لوگوں کو کرپٹ کر رہے ہیں۔

منصوبہ بندی وترقی کے وفاقی وزیر احسن اقبال نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت صوبہ بلوچستان میں سات ارب جبکہ سندھ میں گیارہ ارب ڈالر کے توانائی کے منصوبے جاری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صوبہ پنجاب مین چھ اعشاریہ نو ارب ڈالرز کے پانچ ہزار دوسو ساٹھ میگاواٹ کے منصوبے ہیں۔ صوبہ خیبر پختوانخواہ میں چار ارب روپے کی لاگت سے داسو ڈیم بنایا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس اقتصادی راہداری کی وجہ سے پوری دنیا کی توجہ پاکستان پر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس راہداری منصوبے کی لاگت چھیالیس ارب ڈالر ہے جو متعدد منصوبوں کے لئے ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا "پاک چین اقتصادی راہداری کے حوالے سے غلط گمان کیا جارہا ہے۔ دنیا کے بہترین اداروں نے پاک چین اقتصادی راہداری کو اہم کہا ہے اورپوری دنیا پاک چین اقتصادی راہداری کو گیم چینجر سمجھتی ہے۔" انہوں نے مزید کہا کہ یہ منصوبہ انتہائی شفافیت کے ساتھ آ گے بڑھ رہا ہے اور اس سے پاکستان کے چاروں صوبوں کی تقدیر بدل جائے گی۔

سیاسی جماعتوں کی یہ اے پی سی ایک ایسے موقع پر منعقد کی گئی ہے جب گزشتہ روز چین نے پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ اقتصادی راہداری کے منصوبے پر مختلف حلقوں میں پائے جانیوالے اختلافات کو بات چیت کے ذریعے حل کرے۔

گزشتہ روز اسلام آباد میں چین کے سفارتخانے کے ترجمان نے اپنے ایک بیان میں امید ظاہر کی تھی کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں باہمی روابط اور تعلقات کو مظبوط کرتے ہوئے پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے پر اپنے ختلافات کو ختم کریں گی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید