اونٹ مارو، سیارہ بچاؤ
10 جون 2011آسٹریلیا کے ماحولیاتی تبدیلی کے پارلیمانی سیکرٹری مارک ڈرے فوس کے مطابق ’ آسٹریلوی اونٹوں کو ملک کے اندر اور باہر ایسی کمپنیوں کے ہاتھوں فروخت کیا جا سکتا ہے جنہیں کاربن ڈائی اکسائیڈ کی ضرورت ہے، کیونکہ اونٹ بہت زیادہ ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا باعث بنتے ہیں‘۔ آسٹریلیا دنیا کا وہ ملک ہے جہاں جنگلی اونٹ سب سے زیادہ پائے جاتے ہیں۔ یہ بہت زیادہ میتیھن گیس خارج کرتے ہیں۔ ماہرین کے اندازوں کے مطابق ہر سال ایک جنگلی اونٹ ایک ٹن کاربن ڈائی اکسائیڈ کے برابر میتھین گیس خارج کرتا ہے۔ اس وقت آسٹریلیا میں 1.2 ملین جنگلی اونٹ پائے جاتے ہیں اور ان کی تعداد ہر سال دوگنی ہو رہی ہے۔
Canberra پارلیمان میں جنگلی اونٹوں کو مار کر ماحولیات کی حفاظت کرنے کی اسکیم کے بارے میں دو طرح کے نظریات رکھنے والوں کی حمایت پائی جاتی ہے۔ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے زرعی شعبے کے ایک ترجمان جان کوب کا کہنا ہے کہ جنگلی اونٹوں کو ختم کرنے کا مطلب ہوگا تین لاکھ موٹر گاڑیوں کو سڑکوں پر سے ہٹا لینا۔ آسٹریلوی اونٹوں کے اجداد کو دراصل بھارت سے آسٹریلیا لایا گیا تھا۔ اُس وقت ان کا استعمال مال برداری کے لیے کیا جاتا تھا۔ تاہم بیسویں صدی میں موٹر گاڑیوں نے ان کے کام کی جگہ سنبھال لی۔
اونٹ نہ صرف غذا اور پانی کے لیے مویشیوں بلکہ انسانوں سے بھی مقابلہ کرتے ہیں۔ دو سال قبل 6000 ہزار پیاسے جنگلی اونٹوں نے آسٹریلیا کے شمالی علاقے میں واقع ’ڈاکر دریا‘ پر ہلہ بول دیا۔ وہاں نصب واٹر پائپس توڑ پھوڑ دیے۔ اس علاقے کی عمارتوں کی دیواروں پر لگے ایئرکنڈیشنرز کو بری طرح نقصان پہنچایا۔ حالات اتنے زیادہ سنگین تھے کہ حکومت نے ہیلی کاپٹرز کے ذریعے ان اونٹوں پر فائرنگ کروائی اور یوں انہیں ہلاک کر دیا گیا۔
اُدھر شمالی آسٹریلیا کے ایک وائلڈ لائف آفیسر ’گلن ایڈ ورڈز‘ نے گزشتہ ہفتے انتباہ کیا تھا کہ جنگلی اونٹ آسٹریلیا کے غیر آباد علاقے کو بنجر بنادیں گے، کیونکہ ہر اونٹ روزانہ تقریباً ساڑھے تین کلو قیمتی نباتات چر جاتا ہے۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: افسر اعوان