پاکستان: عسکریت پسندوں کے حملوں میں 33 افراد ہلاک
26 اگست 2024بلوچستان کی صوبائی حکومت کے ترجمان شاہد رند نے کہا کہ پیر کی علی الصبح مسلح حملہ آوروں نے کم از کم تین علاقوں میں ریلوے لائنوں، گیس پائپ لائن اور پولیس اسٹیشن کو بھی نشانہ بنایا۔
انہوں نے بتایا کہ حملہ آوروں نے ضلع موسیٰ خیل میں بسوں اور ٹرکوں کو روک کر مسافروں کو اتارا، ان کی شناخت چیک کی اور 23 لوگوں کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔ ان میں بیشتر صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے تھے۔
اس حملے میں کم از کم نو افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ حملہ آوروں نے اکیس گاڑیوں کو آگ بھی لگادی۔
بلوچستان میں بم دھماکا: دو بچے ہلاک، 16 افراد زخمی
گوادر: ایک اور حملہ، بلوچستان میں امن قائم کرنا مشکل کیوں؟
ریڈیو پاکستان کے مطابق سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ان حملوں کا مؤثر جواب دیا، جس میں 12 عسکریت پسند مارے گئے۔
ہم اس بارے میں کیا جانتے ہیں؟
اسسٹنٹ کمشنر موسیِ خیل نجیب اللہ کاکڑ نے بتایا کہ یہ واقعہ ضلع کے علاقے راڑہ ہاشم میں پیش آیا۔ موسیٰ خیل بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے شمال مشرق میں تقریباً ساڑھے چار سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
انہوں نے مزید کہا، "پنجاب جانے والی گاڑیوں کا معائنہ کیا گیا، اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کو شناخت کر کے گولی مار دی گئی۔"
بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال مزید مخدوش
انہوں نے کہا کہ 19 پنجابی اور 3 بلوچ مارے گئے جن میں زیادہ تر پنجابی مزدور تھے۔
ضلع کے ایک اور سینیئر اہلکار حمید زہری نے اے ایف پی کو ہلاکتوں کی تعداد کی تصدیق کی۔ انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ اس واقعے کے پیچھے بی ایل اے (بلوچ لبریشن آرمی) کے دہشت گرد ہیں۔
بلوچ لبریشن آرمی خطے میں سب سے زیادہ سرگرم عسکریت پسند علیحدگی پسند گروپ ہے۔
دیگر مقامات پر بھی حملے
ادھر بلوچستان کے ضلع قلات میں مسلح حملہ آورں کی فائرنگ سے پولیس اور لیویز اہلکاروں سمیت 10 افراد ہلاک ہو گئے۔
ایس ایس پی قلات دوستین دشتی کے مطابق فائرنگ سے پولیس کا سب انسپکٹر، 4 لیویز اہلکار اور 5 شہری ہلاک ہوئے ہیں۔
عسکریت پسندوں نے بولان کے علاقے میں ایک ریلوے ٹریک کو بھی دھماکے سے اڑا دیا، جس میں ایک شخص ہلاک ہو گیا۔
ڈیرہ بگٹی کے علاقے میں گیس پائپ لائن کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔
سکیورٹی ذرائع کے مطابق سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ان حملوں کا مؤثر جواب دیا ہے۔
جرمن خبر رساں ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق علیحدگی پسند کالعدم گروپ، بلوچ لبریشن آرمی نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
یہ حملہ شورش زدہ جنوب مغربی پاکستان میں سب سے زیادہ مہلک حملوں میں سے ایک تھا۔ صوبہ بلوچستان کے سینیئر پولیس اہلکار ایوب اچکزئی نے کہا کہ یہ واقعات اتوار اور پیر کی درمیانی رات اور علی البصح پیش آئے۔
یہ حملے کالعدم علیحدگی پسند گروپ بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے لوگوں کو ہائی ویز سے دور رہنے کی تنبیہ کے چند گھنٹے بعد ہوئے۔
قتل کے واقعے کی مذمت
صدر مملکت آصف علی زرداری، وزیراعظم شہباز شریف اور وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے دہشت گردی کے بدترین واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
بلوچستان کے وزیر اعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے واقعے مذمت کرتے ہوئے اس کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔
انہوں نے بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال پر ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ہے۔
دوسری جانب وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی کا کہنا ہے کہ عسکریت پسند اور ان کے سہولت کار عبرتناک انجام سے بچ نہیں پائیں گے۔ وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں نے معصوم لوگوں کو نشانہ بناکر بربریت کا مظاہرہ کیا ہے۔
ایسے حملے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں
موسی خیل پر حملہ اسی طرح کے ایک اورحملے کے تقریباً چار ماہ بعد ہوا ہے۔ اپریل میں نوشکی کے قریب نو مسافروں کو بس سے اتارا گیا اور مسلح افراد نے ان کے شناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
گزشتہ سال اکتوبر میں بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے تربت میں نامعلوم مسلح افراد نے پنجاب سے تعلق رکھنے والے چھ مزدوروں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ پولیس کے مطابق ہلاکتیں ٹارگٹ کلنگ تھیں۔ تمام متاثرین کا تعلق جنوبی پنجاب کے مختلف علاقوں سے تھا، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں ان کے نسلی پس منظر کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا۔
اسی طرح کا ایک واقعہ 2015 میں پیش آیا جب مسلح افراد نے تربت کے قریب مزدوروں کے کیمپ پر علی الصبح حملے میں 20 تعمیراتی کارکنوں کو ہلاک اور تین کو زخمی کر دیا۔ مقتولین کا تعلق سندھ اور پنجاب سے تھا۔
ج ا ⁄ ص ز ( اے پی، اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے)