فائرنگ میں چار اسرائیلی ہلاک، فلسطینیوں پر پابندیاں مزید سخت
9 جون 2016
تازہ واقعہ گزشتہ شب اسرائیلی شہر تل ابیب کے مرکز میں کھلے آسمان تلے واقع ایک پُر ہجوم مارکیٹ میں پیش آیا، جہاں ان فلسطینیوں کی فائرنگ سے نہ صرف چار اسرائیلی شہری ہلاک بلکہ کم از کم پانچ دیگر زخمی بھی ہو گئے۔
اس علاقے میں مرمت اور تجدید کے بعد متعدد عمارتوں کو ایک نئی شکل دی جا چکی ہے اور یہ علاقہ سیاحوں میں بہت زیادہ مقبول ہے۔ حملے کے وقت دوکانیں اور ریستوراں بھرے ہوئے تھے۔ اس گلی کے سامنے ہی اسرائیلی فوجی ہیڈکوارٹرز ہیں اور اسی لیے اس علاقے میں سیاحوں کے ساتھ ساتھ اکثر یونیفارم پہنے نوجوان فوجی بھی دکھائی دیتے ہیں۔
تل ابیب کے ضلعی پولس کمانڈر موشے ایدری نے بتایا کہ ’دو دہشت گردوں نے شہریوں پر فائر کھول دیا تھا‘۔ اُنہوں نے بتایا کہ گرفتار حملہ آوروں میں سے ایک فائرنگ کے دوران گولی لگنے سے زخمی ہو گیا تھا اور اب زیر علاج ہے۔ ابتدا میں پولیس نے بتایا تھا کہ ایک تیسرا حملہ آور بھی ہے تاہم پھر علاقے کو پوری طرح سے چھاننے کے بعد اس بات کو خارج از امکان قرار دے دیا گیا۔
گزشتہ آٹھ مہینوں میں پیش آنے والے اس خونریز ترین واقعے کے بعد اسرائیل کے ایک دفاعی ادارے COGAT نے کہا ہے کہ مغربی کنارے اور غزہ پٹی کے فلسطینیوں کے وہ تمام تریاسی ہزار پرمٹ منجمد کر دیے گئے ہیں، جنہیں دکھا کر وہ اسرائیل میں اپنے رشتے داروں کے ہاں آ جا سکتے تھے، یروشلم میں جا کر عبادت کر سکتے تھے یا اسرائیل کے شہر تل ابیب کے ہوائی اڈے کے ذریعے بیرون ملک سفر کر سکتے تھے۔
اس کے ساتھ ساتھ ان حملہ آوروں کے 204 قریبی عزیزوں کے اسرائیلی ورک پرمٹ بھی منجمد کر دیے گئے ہیں۔ مزید برآں اسرائیل نے احکامات جاری کیے ہیں کہ کوئی شخص مغربی اردن میں ان حملہ آوروں کے گاؤں یطا میں نہ تو جا سکے گا اور نہ وہاں سے باہر آ سکے گا۔ COGAT نے البتہ کہا ہے کہ انسانی یا طبی معاملات کی صورت میں لوگ اس گاؤں میں جا اور آ سکیں گے۔
وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اس واقعے کے فوراً بعد پہلے سینیئر اسرائیلی رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں اور پھر جائے وقوعہ کی جانب روانہ ہو گئے۔ اُنہوں نے اس حملے کو ’قابلِ نفرت دہشت گردوں کی جانب سے کیا گیا ایک سنگدلانہ اقدام‘ قرار دیا۔ اُدھر غزہ کی حکمران تنظیم حماس نے اس حملے کا خیر مقدم کرتے ہوئے حملہ آوروں کی بہادری کو سراہا ہے تاہم اس حملے کی ذمے داری قبول نہیں کی ہے۔