پاکستان: اقلیتوں کا قومی دن، کیا عملاﹰ سب کے حقوق مساوی ہیں؟
11 اگست 2017انسانی حقوق کی تنظیمیں ہر سال اقلیتوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی نشان دہی کرتی ہیں لیکن غیر مسلم پاکستانیوں کو شکایت یہ ہے کہ ان تنظیموں کی رپورٹوں پر حکام کی طرف سے کوئی خاطر خواہ کارروائی نہیں کی جاتی۔
اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے لاہور میں منعقد ہونے والے ایک سیمینار میں سیاسی اور سماجی رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ قائد اعظم کی گیارہ اگست 1947ء کی تقریر کو آئین کا حصہ بنایا جائے، نصاب پر نظر ثانی کی جائے اور اس میں ایسے مواد کا خاتمہ کیا جائے، جو مذہبی تفریق کو ہوا دیتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک ایسا قانون بھی بنایا جائے ، جس کے تحت مذہب اور عقیدے کے نام پر امتیازی اختیار کرنے والوں کے خلاف عدالتی کارروائی کی جا سکے۔
پاکستان میں مردم شماری کا عمل اور اقلیتیں
جرمنی میں خصوصی اسلامی قانون کی تجویز غلط، چانسلر میرکل
'پاکستان کی ہندو عورتیں اب جبری طور پر مذہب کی تبدیلی سے محفوظ‘
اس تقریب میں ایم کیو ایم پاکستان کے فاروق ستار، پی پی پی کے قمر زمان کائرہ، جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ جاوید سمیت کئی نامور شخصیات نے شرکت کی۔ مقررین نے گیارہ اگست کو اقلیتوں کا قومی دن قرار دیے جانے اور اس کے دن کے منائے جانے کو سراہا۔ کراچی میں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے اقلیتوں کے دن کے حوالے سے منعقدہ ایک تقریب میں شرکت کی جب کہ ذرائع ابلاغ میں بھی اس دن کے حوالے سے خصوصی رپورٹیں شائع یا نشر کی گئیں۔
لاہور کی تقریب میں مقررین نے کہا یہ اقدام قائد اعظم کے تصورِ پاکستان کا عکاس ہے۔ مقررین نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ آئین کی وہ شقیں، جو بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہیں، ان میں ترمیم کی جائے۔
اس تقریب کے منتظم اور سینٹر فار سوشل جسٹس کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر پیٹر جیکب نے اس قومی دن کی مناسبت سے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ہم سمجھتے ہیں کہ قائد اعظم کی گیارہ اگست کی تقریر کو ہمارے تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا جانا چاہیے کیونکہ یہ خطاب جناح کے تصور پاکستان کی عکاسی کرتا ہے۔ ہم یہ مطالبہ پندرہ برسوں سے کر رہے ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم کے وقت سیاسی جماعتیں ہمارے اس مطالبے کو تسلیم کرنے کے قریب تھیں لیکں جماعت اسلامی اور دوسری مذہبی جماعتوں نے اس کی بھر پور مخالفت کی تھی۔ ہم لیکن سمجھتے ہیں کہ ملک میں بڑھتی ہوئی مذہبی اور فرقہ ورانہ نفرت کو ختم کرنے کے لیے اس تقریر کے ذریعے بانی پاکستان کے تصور ریاست کو فروغ دینا بہت ضروری ہے۔‘‘
پاکستان ہندو فورم کے صدر ڈاکٹر جے پال کا کہنا ہے کہ صرف اس طرح کے دن منانے سے اقلیتوں کے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ غیر مسلم پاکستانیوں کے حقوق کے لیے سیاست دانوں کو جرأت مندانہ اقدامات کرنا ہوں گے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’قیام پاکستان کے وقت جناح اور غیر مسلم پاکستانیوں کے درمیان یہ معاہدہ تھا کہ پاکستان میں کوئی مذہبی تفریق نہیں ہو گی اور نہ یہ ملک کوئی مذہبی ریاست بنے گا۔ قائد اعظم نے اس بات کو 1946میں اپنے ایک انٹرویو میں بھی واضح کیا تھا، جس میں انہوں نے اس بات کا کھلم کھلا اعلان کیا تھا کہ پاکستان کوئی تھیوکریسی نہیں ہو گا۔‘‘
پاکستان: آزادانہ تبدیلی مذہب، روا داری کا ثبوت
پاکستان میں اقلیتی عائلی قوانین: ہندو میرج بل قانون بن گیا
’مودی حکومت اقلیتوں کے تحفظ میں ناکام‘: ہیومن رائٹس واچ
پاکستان ہندو فورم کے صدر نے مزید کہا، ’’اس بناء پر جوگندرناتھ منڈل نے سندھ میں جب کہ پنجاب میں کرسچین رکن اسمبلی ایس پی سنگھا نے پاکستان کی حمایت کی۔ سنگھا نے اپنے دو ساتھی کرسچین اراکین اسمبلی کے ساتھ پاکستان کے حق میں ووٹ دیے تھے، جو فیصلہ کن ثابت ہوئے تھے۔ تو منظر یہ تھا کہ کرسچین اور ہندو رہنما پاکستان کے حق میں کام کر رہے تھے جب کہ جماعت اسلامی، خاکسار تحریک اور جمعیت علمائے ہند اس کی مخالفت کر رہے تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پاکستان کو کوئی مذہبی ملک بننا ہی تھا، تو پھر یہ مذہبی جماعتیں اس ملک کے قیام کی مخالفت کیوں کر رہی تھیں؟ یہ بات واضح کرتی ہے کہ پاکستان کو ایک ایسی ریاست بننا تھا، جہاں تمام شہریوں کو عملاﹰ برابر حقو ق حاصل ہوں۔‘‘
پاکستان سے مسلم، غیر مسلم اقلیتوں کی رخصتی کے اسباب
خیبر پختونخوا: غیر مسلم اقلیتیں خوف اور مشکلات کا شکار
پاکستان: اقلیتیوں کی حفاظت کے لیے خصوصی فورس
ڈاکٹر جے پال نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے متعارف کردہ آئین نے غیر مسلموں کو دوسرے درجے کا شہری بنا دیا تھا۔ ’’آج ہم صدر، وزیر اعظم اور پارلیمانی اسپیکر سمیت کسی اعلیٰ عہدے تک نہیں پہنچ سکتے۔ فوج میں بھی اعلیٰ عہدوں پر ہم نہیں جا سکتے۔ منڈل کے بعد کوئی غیر مسلم وزیر قانون بھی نہیں بنا۔ ملازمتوں میں ہمیں دیے گئے کوٹے پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ نصاب کی وجہ سے ملک کے دیہی علاقوں میں ہمیں شدید تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اندورن سندھ ہندو لڑکیوں کو جبراﹰ مسلمان بنایا جا رہا ہے۔ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ صرف لڑکیاں ہی مسلمان ہو رہی ہیں اور وہ بھی بارہ سے چودہ برس کی۔ ان کے زبردستی نکاح کروا کے دو چار ہفتے کے لیے انہیں غائب کر دیا جاتا ہے اور پھر کسی عدالت میں پیش کر دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی بالغ اپنی مرضی سے مسلمان ہونا چاہے، تو اس پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ عبیداللہ سندھی بھی تو مسلمان ہوئے تھے۔ لیکن زبردستی مذہب تبدیل کروانے سے ہندوؤں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھتا جا رہا ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر جے پال نے کہا، ’’سندھ کے کئی علاقوں میں ہندو ڈاکٹروں اور تاجروں کو اغواء کیا جا رہا ہے۔ دس سے بارہ کے قریب بہترین ڈاکٹر ترک وطن کر کے بھارت جا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی تاجر بھی یہاں سے اپنا بوریا بستر لپیٹ رہے ہیں۔ جبری طور پر تبدیلی مذہب کی وجہ سے بھی لوگ ترک وطن پر مجبور ہوئے ہیں۔‘‘