کیا امریکی امداد افغانستان میں افیون کی کاشت کم کرنے میں مددگار ثابت ہوئی؟
28 اکتوبر 2014جب اکمل سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ایسے افراد کو جانتا ہے جو افیون کی کاشت کر رہے ہیں، اس نے بے خوفی سے جواب دیا کہ وہ خود ایسا کر رہا ہے، اور ان علاقوں میں جہاں طالبان کا کنٹرول ہے اور ان میں بھی جہاں افغان حکومت کا اثر ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے ہلمند صوبے کے ناد علی ضلعے سے تعلق رکھنے والے اس شخص کا کہنا تھا، ’’مجھے کچھ رقم مقامی حکومتی اہل کاروں اور طالبان کو دینا پڑتی ہے مگر میں افیون کاشت کرتا ہوں کیوں کہ مجھے اپنے اخراجات پورے کرنا ہوتے ہیں۔‘‘
ہلمند میں افغانستان کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں افیون کی سب سے زیادہ پیداوار ہوتی ہے۔ یہ صوبہ دنیا میں افیون کی مجموعی کھپت کا اسّی فیصد مہیا کرتا ہے۔ گزشتہ ایک دہائی میں انسداد منشیات کے لیے امریکی حکومت کی جانب سے سات اعشاریہ چھ بلین ڈالر کی رقم خرچ کرنے کے باوجود افیون کی پیداوار نے گزشتہ برس تمام ریکارڈ توڑ ڈالے تھے۔ اس بات کی تصدیق اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم نے اپنی ایک رپورٹ میں کہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق سن دو ہزار تیرہ میں افغان کسانوں نے دو لاکھ نوے ہزار ایکڑ پر افیون کاشت کی۔
افیون کی پیداوار میں اضافے کی ایک وجہ کاشت کے لیے استعمال کی جانے والی ٹیکنالوجی میں ترقی بھی بتائی جاتی ہے۔
امریکی امداد کہاں خرچ ہوئی اس کا سراغ لگانا بہت مشکل کام ہے کیوں کہ افغانستان میں منشیات، بالخصوص افیون کے انسداد کے لیے متعدد قومی اور بین الاقوامی ادارے مصروف عمل ہیں۔ ہلمند میں انسداد منشیات کے محکمے کے سربراہ لعل محمد عزیزی نے ڈی ڈبلیو کا بتایا کہ وہ نہیں جانتے کہ ان کے صوبے میں افیون کی پیداوار کو روکنے کے لیے کتنی رقم صرف ہوئی۔ صورت حال کی خرابی کی ذمے داری امریکی ادارے افغان حکام پر اور افغان حکومتی اہل کار امریکیوں پر عائد کرتے ہیں۔
محمد حنیف دانش یار کے مطابق سن دو ہزار نو میں افیون کی پیداوار میں کمی واقع ہوئی تھی جس کی وجہ امریکا اور برطانیہ کی کوششیں تھی، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ان ممالک کی اس ضمن میں دلچسپی کم ہوتی گئی۔